گلگت بلتستان میں آغا خان ہائیر سیکنڈری سکولوں کےاساتذہ کے لئے پیشہ وارانہ تربیتی پروگام کا انعقاد

 

گلگت (چترال ایکسپرس) تفصیلات کے مطابق گذشتہ روزگلگت بلتستان میں آغا خان ایجوکیشن سروس پاکستان کی طرف سے گلگت کے چاروں ہائیر سیکنڈری سکولوں ، آغا خان ہائیر سیکنڈری سکول ہنزہ ،آغا خان ہائیر سیکنڈری سکول گلگت،آغا خان ہائیر سیکنڈری سکول شیر قلعہ اور آغا خان ہائیر سیکنڈری سکول گاہکوچ کے نئے فکلٹی ممبروں کے لئے ایک ہفتے کی پیشہ وارانہ تربیتی پروگرام شروع ہوا ۔ جنرل منیجر برائے گلگت بلتستان اور چترال ریٹائرڈ بریگیڈئیر خوش محمد نے اپنے افتتاحی کلمات میں تربیتی پروگرام کے شرکا اوراس پروگرام کے سہولت کارو ںکو خوش آمدید کہتے ہوئے اس تربیتی نشست کے اغراض و مقاصد بیاں کئے ۔ اُنہوں نے اپنے افتتاحی خطاب میں اس پروگرام میں شرکت اور شرکا سے اپنے اعلی ٰ پیشہ وارانہ تجربات بانٹنے کے لئے اسلام آباد سے گلگت تشریف لانے پر آٖغا خان ایجوکیشن سروس پاکستان کے ہیڈ آف ایجوکیشن آئین شاہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس تربیتی پروگرام کی اہمیت پر پُر مغز گفتگو کی ۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ہمارے اساتذہ اپنے اپنے سکولوں میں تن دہی کے ساتھ اپنے فرائض نبھا رہے ہیں تاہم مزید بہتری کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے ۔ ایک اچھے ٹیچر کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے تجربات سے سیکھتے ہوئے اپنا پیشہ وارانہ سفر جاری رکھے ۔ انہوں نے کہا کہ ہائیر سیکڈری سکولوں کی مثال تارریکی میں روشنی کے مینار کی ہے ۔ اس روشنی سے بہرہ ور ہونے والی نسل قوم کی ترقی کی ضامن ہے اور قوم کی ترقی کے اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں استاتذہ کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آغا خان ہائیر سیکنڈری سکولوں میں اُن بچوں کو داخلہ ملتا ہے جو اپنی منزل پہلے سے طے کر چکے ہوتے ہیں لہذا انہیں اُن کی تعین کردہ منزلوں کی جانب گامزن کرنے میں انتہائی باریک بینی اور دانشمندی سے کام لینے کی ضرورت ہے تاکہ آغا خان ہائیر سیکنڈری سکولوں سے فارغ التحصیل تمام طلبہ تیزی سے بدلتے زمانے کے جدید تضا ضوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر دنیا کی ترقیافتہ اقوم کے ساتھ مقابلہ کر سکیں اور یہ بے مثال کامیابی اُس وقت ممکن ہو گی جب ہمارے ٹیچرز پڑھانے کے جدید طریقوں کا تجربہ اپنے روزانہ تدریس کا حصہ بنائیں گے ۔
جنرل منیجر کے ابتدائی کلمات کے بعد آغا خان ایجوکیشن سروس پاکستان کے ہیڈ آف ایجوکیشن جناب آئین شاہ صاحب نے شرکائے تربیت سے اپنی تفصیلی پیشہ وارنہ گفتگو میں درس تدریس کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور اس نازک کام کو کئی ایک عام فہم مثالوں اور حوالوں سے اجاگر کیا اور کہا کہ اساتذہ کو درس و تدریس کے میدان میں اپنے مخصوص پیشہ وارانہ دائروں کے اندر رہتے ہوئے اپنے فرائض انجام دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس پیشے کی مثال ڈرائیونگ کی ہے ۔ جیسے ایک ڈارائیور کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ گاڑی بنانے کی تمام فنی مہارتوں سے باخبر ہو کیوں کہ اُسے گاڑی چلانے اور مسافروں کو حفاظت کے ساتھ منزل مقصود تک پہنچانے کی زمہ داری سونپی گئی ہے نہ کہ گاڑی کی انجینئرنگ کو جاننے کی لہذا ایک بہترین ڈرائیور وہ ہے جو گاڑی چلانے کی تمام مہارتوں کا حامل ہو ۔ ہم میں سے بہت سارے ایسے ہوں گے جو گاڑی سے منسلک تمام پرزوں کی جان کاری میں یکتا ہوں گے لیکن اُنہیں ایک گاڑی دیکر کہا جائے کہ اسے چلائیں تو وہ کہے گا / گی ” یہ میری بس کی بات نہیں ” اگر آپ بہ زور بازو اُسے چلانے کا کہیں گے تو آپ کی گاڑی کے ساتھ ڈرائیور کی جان بھی خطرے میں ہو گی ۔یوں ہم میں سے بہت سارے ایسے بھی ہوں گے جو گاڑی کے تمام پرزوں اور اُن کے کام کے طریقوں سے باخبر نہیں ہوں گے لیکن گاڑی چلانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔ یہی کچھ تمام پیشوں کے ساتھ ہے ۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک پیشہ ور اپنے مخصوص پیشے کو بہتر طور پر چلانے میں کتنی مہارت رکتھا/ رکھتی ہے ۔ کمرہ جماعت ایک ایک ایسے پچیدہ سفر کا نام ہے کہ جس کا قصد کرنے سے پہلے ایک راہی کو مکمل تیاری اور صحت مند زاد راہ کا حامل ہونا ضروری ہے ۔ انہوں نے مختلف طریقہ ہائے تدریس پر ہلکے پھلکے انداز سے بے حد فائدہ مند گفگتو کی ۔ موصوف کی بات چیت کا انداز اتنا پر کشش تھا کہ شرکا سننے کے ساتھ ساتھ براربر داد بھی دیتے رہے ۔
توقع کی جاتی ہے کہ اس تربیتی پروگرام میں آغا خان ایجوکیشن سروس کے علاوہ ملک کے اور بھی اعلیٰ تعلیمی اداروں کے ماہریںِ تعلیم اس پروگرام کا کلیدی حصہ بنیں گے جن میں ڈاکٹر مولا داد اور دیدار پناہ کے علاوہ کئی ایک اعلیٰ پیشہ ور بھی شامل ہیں ۔ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس تربیتی پروگرام کے بعد تربیت یافتہ اساتذہ اپنے اپنے سکولوں میں جانے کے بعد درست معنوں میں تدریسی تبدیلی لانے کا موجب بنیں گے ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔