نصاب میں حقائق سے انحراف

………محمد شریف شکیب……….
شاعر مشرق نے کہا تھا کہ ’’ شکایت ہے مجھے یا رب خدا وندان مکتب سے۔۔ سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا‘‘حکیم الامت کا یہ قول تعلیمی نصاب بنانے والوں پر صادق آتا ہے۔ تاریخ کی کتابوں کے مطالعے کے بعد ہم پر یہ حقیقت آشکار ہوگئی ہے کہ ہمارے ہاں کچی کلا س سے ہارہویں جماعت تک تعلیمی نصاب میں بچوں کو جو کچھ پڑھایا جاتا ہے ۔ وہ تاریخی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔پس پردہ حقائق سے جانکاری کے بعد پتہ چلا ہے کہ جن کو نصابی کتابوں میں ہیرو بناکر پیش کیا جاتا ہے ان میں سے بیشتر زیرو ثابت ہوئے ہیں۔بچے کا ذہن کورے کاغذ کی مانند ہوتا ہے۔ ابتدائی عمر میں اس کورے کاغذ پر جو نقشہ بنایا جائے وہ ساری زندگی ذہن میں نقش ہوکر رہ جاتا ہے۔ نصابی کتابوں کی تیاری انتہائی حساس کام ہے۔ نصاب بنانے والوں کے لئے انگریزی کا یہ فارمولہ وضع ہونا چاہئے کہ ’’وہ بہت سی چیزوں کے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں اور باقی چیزوں کے بارے میں کچھ نہ کچھ جانتے ہیں‘‘ لیکن نصابی کتابوں کے جائزے سے یہ تلخ حقیقت سامنے آئی ہے کہ نصاب تیار کرنے والوں نے صرف اپنی دیہاڑی پوری کی ہے اور انہوں نے چند بنیادی حقائق کو مسخ کرکے قوم کے بچوں کو گمراہ کرنے اور ان کے ذہنوں میں غلط معلومات فیڈ کرنے کی دانستہ کوشش کی ہے۔ ایک غیر ملکی برانڈ نام سے تعلیمی ادارہ چلانے والوں نے چوتھی جماعت کی انگریزی کی کتاب میں یہ مضحکہ خیز مضمون شامل کیا ہے کہ چترال میں بسنے والے لوگوں کالاش کا نام اس لئے دیا گیا ہے کہ وہ کالا لباس پہنتے ہیں۔نصاب تیار کرنے والے نے چترال اور کالاش کا صرف نام ہی سنا ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ چترال کی پانچ لاکھ سے زائد کی آبادی میں غیر مسلم کالاش قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد بمشکل پانچ ہزار ہے جو بمبوریت، رمبور اور بریر نام کے تین دیہات میں آباد ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ یونانی نسل سے تعلق رکھتے ہیں وہ سکندر اعظم کے لشکر کے ساتھ آئے تھے۔ چند خاندان بیماری کی وجہ سے لشکر سے پیچھے رہ گئے اور وادی کالاش میں رہائش اختیار کی۔ ان کی رسومات ہوبہو قدیم یونانیوں کی طرح ہیں۔کالاش خواتین مخصوص تہواروں کے مواقع پرسیاہ رنگ کے آرائشی لباس پہنتی ہیں۔ چترال کی 98فیصد آبادی سنی اور اسماعیلی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ صرف کالاش خواتین کے سیاہ لباس کی وجہ سے چترال کی پوری آبادی کو سیاہ پوش کالاش قبیلے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہی نہیں۔ خیبر پختونخوا ٹیکسٹ بک بورڈ کی منظور شدہ بارہویں جماعت کی معاشرتی علوم کی کتاب میں وادی شندور کو ضلع غذر کی چراگاہ قرار دیا گیا ہے۔شندورضلع اپر چترال کی وادی لاسپور کی گرمائی چراگاہ ہے ہر سال جولائی کے پہلے ہفتے میں یہاں پر موجود قدرتی سٹیڈیم میں جشن برپا ہوتا ہے۔ چترال اور گلگت کی پولو ٹیموں کے درمیان میچ کھیلے جاتے ہیں ا س کے علاوہ یہاں ہائیکنگ اور پیراگلائیڈنگ کے مقابلے بھی ہوتے ہیں ثقافتی اور ادبی محفلیں بھی جمتی ہیں۔سطح سمندر سے ساڑھے بارہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع اس قدرتی سٹیڈیم کو دنیا کی سب سے اونچی تماش گاہ کا درجہ حاصل ہے۔ یہاں جشن کا انتظام ہر سال چترال کی ضلعی انتظامیہ اور چترال سکاوٹس مشترکہ طور پر کرتے ہیں۔چترال رقبے کے لحاظ سے صوبہ خیبر پختونخوا کا سب سے بڑا ضلع ہے ساڑھے چودہ ہزار مربع کلو میٹر رقبے پر پھیلی ہوئی اس وادی کے زیرقبضہ علاقے کو نصاب کی کتاب میں گلگت کا حصہ قرار دینے پر صوبائی حکومت کو ٹیکسٹ بک بورڈ اور نصاب تیار کرنے والوں کے خلاف کاروائی کرنی چاہئے۔ جس طرح گھر میں بچے کو اچھے برے کی تمیز ابتدائی عمر میں سکھائی جاتی ہے اسی طرح سکول میں بچوں کو قوم کی تاریخ،جغرافیے ، ادب، زبان، ثقافت اور تمدن کا سبق سکھایا جاتا ہے۔ اس لئے نصاب ہر لحاظ سے جامع، تاریخی حقائق اور مسلمہ اعدادوشمار سے مزین ہونا چاہئے۔ ترقی یافتہ قومیں اپنے بچوں کی تعلیم پر سب سے زیادہ توجہ دیتی ہیں۔ امریکہ اور یورپ میں پرائمری ٹیچر کو ملک کے صدر اور وزیراعظم کے مساوی درجہ دیا جاتا ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تجربہ کار اساتذہ کو پرائمری کلاس کے بچوں کی تعلیم و تربیت کا کام سونپ دیا جاتا ہے۔ پرائمری ٹیچر کی تنخواہ یونیورسٹی کے پروفیسر سے زیادہ ہوتی ہے۔ جبکہ ہمارے یہاں سب سے نالائق ٹیچر کو پرائمری کے بچوں کوپڑھانے پر لگایا جاتا ہے۔ یہی ہماری تعلیمی انخطاط اور اقوام عالم سے پیچھے رہ جانے کا بنیادی سبب بھی ہے۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔