داد بیداد ….احتجا ج اور واپڈا حکام 

بجلی غیر معینہ مدت کے لئے منقطع ہو جاتی ہے جب لوگ سڑکوں پر آکر احتجا ج کر تے ہیں روڈ بلاک اور دفاتر کو تالا لگا نے کی دھمکی دیتے ہیں تو فوراً بجلی آجاتی ہے بجلی کے بل میٹر کا ریکارڈ دیکھے بغیر اند ھا دھند بھیجے جاتے ہیں لوگ احتجا ج کر تے ہیں بازاروں کو بند کر تے ہیں دفاتر پر حملے کی دھمکی دیتے ہیں تو بلوں کو درست کیا جاتا ہے لوگ حیراں ہیں کہ جو کام روز مر ہ دستور یا روٹین کے مطابق ہو سکتا ہے اس کام کے لئے واپڈا حکام احتجا ج ، ہڑتال اور تو ڑ پھوڑ کا انتظار کیوں کر تے ہیں ؟قانو ن کے مطابق صارفین کی معقول ، مہذب اور شائستہ بات کیوں نہیں مانتے پہلے اس قسم کا رویہ پورے ملک میں تھا ضلع چترال میں نہیں تھا جب سے گولین گول کا 108 میگا واٹ پاور پراجیکٹ مکمل ہوا ہے تب سے واپڈا حکام نے چترال کے عوام سے بھی احتجاج ، ہڑتال اور توڑ پھوڑ کی اُمید رکھنا شروع کیا تین بنیادی باتیں واپڈا حکام کی خدمت میں پیش کی گئی تھیں پہلی بات یہ تھی کہ میٹر ریڈر بھر تی کر کے ہر مہینے صارفین کے میٹر چیک کئے جائیں اند ھا دھند بل بھیجنے کا سلسلہ بند کیا جائے دوسری بات یہ تھی ملاکنڈ ،درگئی اور گلگت میں مقامی آبادی کے صارفین کو پید اواری لاگت یعنی 1.70 روپے فی یونٹ کے حساب سے بل دیا جاتا ہے چترال کے بجلی گھر سے بھی گھر یلو صارفین کو پید اواری لاگت یعنی 1.70 روپے ( ایک روپیہ 70 پیسے ) فی یونٹ کے حساب بل دیا جائے یہ مقامی آبادی کا حق بھی ہے دستور زمانہ بھی ہے اور اس کی نظیر یں (Precedants) بھی موجود ہیں اسی طرح بالائی چترال کو بلا تعطل بجلی دینے کا مطالبہ بھی شروع دن سے ہو رہا ہے شائستہ زبان میں دلا ئل کے ساتھ پیش کئے جانے والے مطا لبے کو حکام بالا خاطر میں نہیں لا تے وہ احتجاج اور ہڑ تال یا تو ڑ پھوڑ کے انتظار میں رہتے ہیں گو یا پاکستان میں اب تک جو ضلع سب سے پر سکون سب سے پر اُمن تھا اس کو بھی بد امنی کی بھینٹ چڑ ھا یا جا رہا ہے انگریزوں کے دور میں عوامی مطالبات ، احساسات اور جذبات کا باقاعد ہ سروے ہوتا تھا صوبائی گورنر چارج کننگم ہر روز قصہ خوانی گزٹ سنا کر تے تھے یہ قصہ خوانی بازار کے قہوہ خانوں میں ہونے والی گفتگو پر مبنی رپوٹ ہو تی تھی اس رپورٹ سے گونر ر اندازہ لگاتے تھے کہ عوام کیا چاہتے ہیں؟ قاعد ہ رپورٹیں مرتب ہوا کرتی تھیں جنرل مشرف کے دور تک یہ دستور تھا کہ سرکاری حکام اور عوام کا باہمی تعلق ہو تا تھا سیاسی حکومتوں میں پارٹی عہد یدار اور اراکین اسمبلی کا بھی لوگوں کے ساتھ باقاعد ہ رابطہ ہو ا کرتا تھا بھٹو شہید رات کو 3 بجے تک فائلیں ، رپورٹیں اور اخباری تراشے پڑھتے تھے اور صبح سے پہلے سینکڑوں مسائل پر احکامات صادر کرتے تھے ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر کے ساتھ ضرورت کے وقت ہاٹ لائن پر رابطہ کر تے تھے جنرل ضیا ء ، نواز شریف ، محترمہ بے نظیر بھٹو اور جنرل مشرف بھی عوامی جذبات اور مطالبات سے متعلق رپورٹیں خود پڑھتے تھے صوبائی قیادت میں آفتاب شیر پاؤ ، مہتاب عباسی ،اکرام خان درانی اور امیر حیدر خان ہوتی روزانہ 6گھنٹے فائل ورک کرتے تھے جنرل فضل حق اور جنرل افتخار حسین شاہ کو صوبے کے چپے چپے کی خبروں کا علم ہوتا تھا اخباری تراشے ہر روز ان کے سامنے جاتے تھے پڑ ھنے کے بعد خط کشید ہ جملوں پر دلچسپ رائے دیکر حکام کے پاس بھیجتے تھے زوال کی طرف جاری ہمارے سفر میں عوام اور حکمرانوں کا باہمی رابطہ ٹوٹ گیا ہے 1964 ء میں نواب امیر محمد خان کالا باغ نے چترال کے10 بڑے مسائل پر میٹنگ بلائی اور 6 مسائل کو حل کیا 1975 میں بھٹو شہید نے چترال میں برفباری کی وجہ سے محصور ہونے والی آبادی اور ان کے جانوروں کے لئے 24 گھنٹوں کے اندر سی ون 30- جہازوں کے ذریعے گندم اور چارہ بروغل میں اتارا 2005 ء کے سیلاب میں مستوج پل ٹو ٹ گیا تو 12 گھنٹوں کے اندر دو کروڑ روپے مستقل بل کے لئے اور 30 لاکھ روپے عارضی پل کے لئے ریلیز کئے گئے یہ عوام اور حکمرانوں کے باہمی رابطہ کاری کا نتیجہ تھا بدقسمتی سے آج سہو لیات 1964ء اور 1975 ء یا 2005 ء کی نسبت سو گنا زیادہ ہو گئے ہیں مگر اس ترقی سے عوام کو کسی بھی قسم کا فائد ہ نہیں ملتا تین مناسب مطالبات مقامی آبادی کو گولین گول کی بجلی پید اواری لاگت یعنی ایک روپے 70 پیسے یونٹ کے حساب سے فراہمی ، میٹر ریڈروں کی بھر تی اور اپر چترال کو بجلی کی سپلائی فیس بک اور ٹو ئیٹر پر دئیے گئے ،سٹیزن پورٹل پر دئیے گئے اخبارات میںآگئے خفیہ اداروں کی رپورٹوں میںآگئے واپڈا حکام نے توجہ نہیں دی لا محالہ احتجاج ہو گا، ہڑتال ہو گی تب حکام کی آنکھیں کھلینگی ۔
ہم نے ما نا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائینگے ہم ، تم کو خبر ہو نے تک
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔