مکتوبِ چترال….چترال بازار،مسائل کی آماجگاہ

………….بشیر حسین آزاد………..
ایک زمانہ تھا چترال کے لوگ اپنے مسائل حل کروانے کیلئے چترال بازار کا سہارالیتے تھے اور تاجر برادری کا تعاون حاصل کرکے اپنے مسائل اعلیٰ حکام تک پہنچاتے تھے۔ایک یہ زمانہ بھی آگیا ہے کہ چترال بازار خود مسائل کی آماجگاہ بن گیا ہے۔بازار کے کاروباری حلقے اپنے مسائل اعلیٰ حکام تک پہنچانے سے قاصر ہیں۔ایک وقت وہ بھی تھا جب پورے چترال میں بجلی کی تحریک چترال بازار سے اُٹھتی تھی ایک وقت یہ بھی آگیا ہے کہ پچھلے ایک سال سے بائی پاس بازار کے دکاندار ٹرانسفارمرکے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ٹرانسفارمر خود آکر نہیں لگتا۔اس کو لانے اور لگانے والا کوئی نہیں۔ایک سال پہلے بازار میں مسجدیں بنانے،سی سی ٹی وی کیمرے لگانے،واش روم مہیا کرنے،چوکیداری نظام کو مضبوط کرنے کی منصوبہ بندی تھی۔مگر اس منصوبے کے نتیجے میں چترال بازار کو ون وے(ONE WAY)کا تحفہ ملا بازار کا بڑا حصہ مین شاہراہ سے کاٹ دیا گیا،کاروباری طبقہ اپنا بوریا بسترلپیٹ کر فرار ہونے پر مجبور ہوا۔اب تک یہ بات معلوم نہ ہوسکی کہ ون وے کس کی درخواست پر کس کے فائدے کے لئے لگایا گیا تھا۔عوام کو ون وے سے کوئی سہولت نہیں۔ٹرانسپورٹروں کو ون وے کا کوئی فائدہ نہیں ۔کاروباری طبقے کو ون وے نے عذاب میں گرفتار کررکھا ہے ایک سال پہلے جب تجار یونین کے انتخابات کی گہماگہمی تھی تو تجار یونین کے نمائندوں نے تجار برادری کو سبز باغ دکھاتے ہوئے بڑے بڑے دعوے کئے تھے۔مسجدیں بنانے،سی سی ٹی وی کیمرے لگانے،واش روم مہیا کرنے،چوکیداری نظام کو مضبوط کرنے ،سیاسی دباؤ سے تاجربرادری کو آزاد کرانے،کسی بھی قسم کی جلسہ جلوس اور احتجاج کی صورت میں بازار کھلا رکھنے،بائی پاس روڈ سبزی منڈی سے کڑوپ ریشت بازارتک اسٹریٹ لائٹ کی بندوبست اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے،انتظامیہ سے ملکر دکانداروں کے قانونی حقوق کی تحفظ کو یقینی بنانے،سیکورٹی کے حوالے سے رات کے اوقات میں پولیس گشت کو یقینی بنانے اور چوری کی وارداتوں کو روکنے کا وعدہ کیا تھا مگر اب چوری کی وارداتیں پہلے کی نسبت کئی گنا بڑھ گئی ہیں۔کاروباری لوگ پوچھتے ہیں کہ ہمارے نمائندوں کے وہ دعوے کدھر گئے؟
اگر ایک سال پہلے چترال کی تاجر برادری درست فیصلہ کرکے صحیح نمائندوں کا انتخاب کرتی تو آج چترال بازار اس طرح مسائل کی آماجگا ہ نہ ہوتا۔بلکہ چترال کے تمام مسائل تجار یونین کی وساطت سے حل ہوجاتے۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔