داد بیداد ….ٹھنڈی راکھ میں چنگاری 

ٹھنڈی راکھ میں چنگاری کا پتہ کیسے لگیگا؟اسے کس طرح ڈھونڈ و گے؟ اس کا علاج کیا ہوگا؟ یہ آج کے دور کا اہم مسئلہ ہے سب کہتے ہیں ٹھنڈی راکھ میں چنگاری تھی جس نے آگ لگائی کوئی آگے بڑھ کر یہ نہیں کہتا کہ ٹھنڈی راکھ میں چنگاری ہے یہ چنگاری آگ لگائے گی اور ضرورت اس امر کی ہے کہ قبل از وقت پیش گوئی اور پیش بندی کی جائے دو خبریں ملاحظہ ہوں اگست 2016ء میں خبر آگئی تھی کہ 55 ہزارافغان مہاجرین نے پاکستانی پاسپورٹ بنا لئے حکومت نے انکو ائری کا حکم دیا ہے اس کے بعد خبر کے ذرائع کو دبا دیا گیا کوئی انکوائری نہیں ہوئی گزشتہ روز اخبارات میں جلی سرخیوں کے ساتھ خبر آگئی ہے کہ 10ہزار پاکستانیوں نے راشن ،امدادی سامان اور نقد امداد لینے کے لئے افغان مہاجرکے طورپر اپنے آپ کو رجسٹرکروالیا گزشتہ 40سالوں سے راشن اور امدادلے رہے ہیں اُن کے بچوں نے UNHCRکا وظیفہ لیکر بیرون ملک تعلیم حاصل کی انہوں نے مجاہدین اور مہاجرین کی مراعات لیکر سرکاری حج اور عمرے کئے، سعودی عرب اور امریکہ جاکر عیش کیا خبر کے آخرمیں ٹیپ کا مصرعہ دہرایا گیا ہے کہ حکومت نے انکوائری کا حکم دیا ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ انکوائری کا حکم دینا کوئی نئی بات نہیں ایک اور خبر آئی ہے کہ سکول ٹیچر کے گھر میں بم پھٹنے سے 6افراد جان بحق ہوئے اب سکول ٹیچر اپنی بیوی اور 4بچوں کے ساتھ لقمہ اجل بن گیا مگر یہ بات انکوئری کے لائق ہے کہ اس کے گھر میں بم کہاں سے آیا تھایہ چنگاری کی چند مثالیں ہیں ہمارے دوست مرحوم مولانا محمد افضل افغان سرحد پر نظررکھتے تھے سر حد پار کرنے والے لوگوں کی خبر واجد رضوی یا رحیم اللہ یو سفزئی کو بھیج دیتے خبر اخبار میں لگ جاتی تو خفیہ والے مولانا سے ناراض ہو جاتے کہ یہ خبر ہمیں دینے کی جگہ تم نے اخبار میں کیوں لگوائی ؟ وجہ مولانا کو معلوم تھی افغان سرحد پر جن لوگوں کی ڈیوٹی تھی ان کو فارسی اور پشتو نہیں آتی تھی جن لوگوں کو مقامی زبانوں پر عبور حاصل تھا وہ سیاست دانوں کی نگرانی پر مامور تھے بعض لوگ کہتے ہیں کہ ملکی سلامتی کے اداروں کو سیاسی مخالفین کے پیچھے لگانے کا کام بھٹو شہید کے دور میں شروع ہوا مگر سرکاری ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام 1951ء میں شروع ہو ا تھا میاں ممتاز دولتانہ ، ایو ب کھوڑو ، جی ایم سید ، خان عبدالقیوم خان ، خان عبدالغفار خان، عبدالصمد اچکزئی ،مولانا عبدالحمید خان بھا شانی وہ لوگ تھے جو خفیہ والوں کے نشانے پر تھے فیلڈ مارشل ایوب خان نے EBDOکا قانون ایسے ہی رپورٹوں کی بنیاد پر نا فذکیا اُس زمانے میں بھی آج کی طرح اخبارات پر پابندیاں ہوا کرتی تھیں سرکاری ادارے یک طرفہ خبریں دیکر جھوٹ پھیلا یا کرتے تھے مشرقی پاکستان میں علیٰحدگی کا بیچ اُس دور میں بویا گیا خفیہ والوں نے راکھ میں چنگاری کی خبر نہیں دی وہ بھاشانی اور شیخ مجیب کے پیچھے پڑے رہے اور مکتی باہنی منظم ہوگئی حبیب جالب ، آغا شورش کا شمیری اور فیض احمد فیض نے اگر کچھ لکھا اور پڑھا تو ان کو قید میں ڈال دیا گیا آج بھی جنوبی پنجاب میں شعراء اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اُن کی نظموں سے پتہ لگتا ہے کہ ٹھنڈی راکھ میں چنگاری ہے بلوچستان ، سندھ اور خیبر پختونخوا میں شعراء کے ہاں اس بات کا شعور ملتا ہے کہ قالین کے نیچے کیا ہے ؟ اتل کی نظمیں ،مشال کے باپ اقبال کی نظمیں ہیں، بخت زادہ دانش ، رحمت شاہ سائل اور بے شمار شعراء ایسے ۲ہیں جو احسن واگھا،اور امر جلیل کی طرح آنے والے وقت کی پیش گوئی اپنے اپنے انداز میں کررہے ہیں جب بھی میڈیا پر پابندی ہو، شاعری اس کا متبادل بن جاتی ہے الٹر نیٹیو میڈیا بن کر سامنے آتی ہے 2017ء میں بخت زادہ دانش کی نظم آگئی تھی ’’لر اور بر پختون ‘‘ ۱یک سال بعد ملاکنڈ ڈویژن کے شاعر کی پیش گوئی وزیرستان سے پی ٹی ایم بن کر سامنے آگئی نظم کا ایک ایک بند پی ٹی ایم کے جلسوں کی روداد ہے جو ایک سال پہلے مرتب ہوئی اقبال ، اتل اور رحمت شاہ سائل کی نظمیں اسی قبیل سے تعلق رکھتی ہیں نظمیں پڑھ کر ایسا لگتا ہے گویا شاعروں نے معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھ لیا ہے سول بیورو کریسی اور فوجی سروس سے جو افیسر 1990ء کے عشرے میں ریٹائر ہوئے اُن افیسر وں کے سینوں میں خفیہ رپورٹوں کے بہت اہم راز پوشیدہ ہیں سینئر حکا م اپنی نجی محفلوں میں جو انکشافات کر تے ہیں ان کے تین نکات کو آج کے دور کے لئے بیحد اہم قرار دیا جاتا ہے پہلا نکتہ یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کبھی نہیں آئی ، فوجی ڈکٹیٹر شپ یا سول ڈکٹیٹر شپ رہی دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ملک میں مقبول عوامی قیادت کو کبھی برداشت نہیں کیا گیا 1954ء میں مشرقی پاکستان میں مولوی اے کے فضل الحق کی حکومت کو توڑ کر علیحدگی کی بنیا د رکھی گئی مولوی اے کے فضل الحق نے 23مارچ 1940ء کو لاہور میں قرارداد پاکستان پیش کی تھی اور مشرقی پاکستان کی اسمبلی کے 309ممبروں میں سے 237ممبروں کی اکثریت اُن کے ساتھ تھی 22نو مبر1954کو ون یونٹ بنا کر بلوچستان کو اس میں ضم کیاگیا بلوچ لیڈروں کے دلوں میں احساس محرومی یہاں سے شروع ہوا سندھ میں جی ایم سید کی حکومت توڑ کر ایوب کھوڑو کو لاگیا جی ایم سید وہ لیڈر تھے جنہوں نے 1947ء میں سندھ اسمبلی میں پاکستان کا جھنڈا لہرایا تھا یہ سب کچھ اس وجہ سے ہوا کہ عوامی جذبات اور احساسات کے بارے میں حکومت بے خبر رہتی تھی خفیہ رپورٹیں حکمرانوں سے چھپائی جاتی تھیں ٹھنڈی راکھ میں چنگاری دبی رہتی تھی اب بھی وہی صورت حال ہے خفیہ رپورٹیں دبائی جاتی ہیں شاعر وں نے اگر عوامی احساسات کی ترجمانی کی معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھ لیا تو اُن کو نظر انداز کیا جاتاہے نتیجہ مکتی باہنی ،بی ایل اے اور پی ٹی ایم بن کر سامنے آتا ہے فیض احمد فیض نے گھٹن کے ایسے ہی دور میں یہ بات کہی تھی ؂
نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔