جنگ و جدل بچون کا کھیل نہیں۔

………فرہاد خان ۔……..

خُدارا ایسا کبھی مت سوچئےگا۔جنگ و جدل ،قتل وغارت گری کسی مسلے کا حل نہیں۔ یہ اکیسوین صدی ہے اور اس صدی میں جنگ کا سوچنا ہی پاگل پن کا آخری معیار ہے۔ جنگ و جدل نسلین اُجاڑ دیتی ہیں اور موجودہ صدی کے جنگ کے نتائج تو انتےہولناک ہونگے کہ ہماری عقل اور سوچ سے باہر ہیں۔آپ پولینڈ کے لوگوں سے زرا پوچھ تو لیں کہ جنگ کس بلا کا نام ہے۔آپ کسی یورپی خاندان سے پوچھیں کہ جنگ کیا ہوتی ہے۔ آپ ہر ایک کے آنکھ پر آنسو دیکھیں گے۔جرمن فوج نے یکم ستمبر 1939 کو پولینڈ پر حملہ کیا۔دوسری جنگ عظیم کا آغاز تھا،بھاری بھر فوج، ٹینکوں اور طیارون سے لیس جارح فوج کے ہاتھوں تقریبا 1 لاکھ 99 ہزار لوگ قتل ہوئے۔75 سال بعد بھی شہر کے دیوارون پر جنگ کے زخم تازہ ہیں۔یورپ نے 1939 سے 1945 تک یعنی 6 برس تک جنگ بھگتی،یورپ امریکہ اور جاپان کے چھ کروڑ لوگ ہلاک ہوئے۔ امریکہ نے آخر میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر دو ایٹم بم گرادیئے۔ دو منٹ میں ہیروشیما میں ایک لاکھ چاللیس ہزار لوگ جبکہ ناگاساکی کے 75 ہزار معصوم لوگ لقمہ اجل بنے ۔جو زندہ بچے وہ عمر بھر کے لئے معذور ہوگئے۔جنگ عظیم دوم میں یورپ کا کوئی بھی شہر سلامت نہیں رہا، بجلی ،پانی۔سڑکیں سکول و کالج ریلوے کا نظام یعنی پوری نظام زندگی مفلوج ہوگئی۔آپ جنگون کے دوران ہہودیون کی داستانیں پڑھیں ،آپ دکھی ہوجائیں گے۔سینکڑون ہزارون یہودی خاندان دو دو برس تک گٹرون میں رہی۔زرا پہلی جنگ عظیم بھی دیکھیئے،جولائی 1914 سے نومبر 1918 تک چار سال کے دوران یورپ نے سوا چار کروڑ لوگون کی قربانی دی۔یہ ایسی جنگیں تھیں جن میں تقریبا ہر مان کی گود اُجڑ گئی۔ ان لوگون سے پوچھیں تو وہ آپ کو جنگ کا مطلب سمجھائیں گی۔پھر بھی اگر پتہ نہ چلے تو ویتنام،افغانستان اور افریقہ کے جنگ زدہ علاقون سے پوچھ لین۔19 سال تک ویتنام کے لوگون نے جنگ بھگتی۔ پچھلے 35 سال سے افغانستان کے لوگ لاشین اُٹھارہے ہیں۔افریقی ممالک نائجیریا، لائبیریا، سرالیون ،صومالیہ ،یوگنڈا اور سوڈان میں طویل جنگ نے قحط کو جنم دیا اور اس انسانی المیے کے اثرات اج بھی ان علاقے کے لوگون کی انکھوں میں نمایان ہیں۔یاد رکھیں جنگ بچون کا کھیل نہیں اس سے نسل در نسل تباہی و بربادی کا سلسلہ نکلتا ہے۔ جنگ کیا ہوتی ہے آپ ان افریقی ممالک کے بد قسمت خاندانون سے پوچھ لیں وہ بتائیں گے کہ جب انسان اپنے اولاد ،اپنے والدین یا اپنی ہی بیوی کا گوشت کھانے پر مجبور ہوجاتا ہے تو اسکی روح کس قدر گھائل ہوتی ہے ۔یہ سب جنگ و جدل کے نتائج ہیں جس میں جیتنے والا کوئی نہیں ہوتا ہوری کی پوری انسانیت ہار جاتی ہے ۔یہ بھی یاد رکھیں کہ آج ہم اپنے گھر بیٹھے دہلی یا ممبئی میں اسلام کا جھنڈا بلند کرنے اور بھارت سے جنگ جیتنے کی جو خوش فہمی میں ہیں اس کے لئے کتنے پاپڑ بیلنے پڑیں گے اس کے نتائج کتنے ہولناک ہونگے ہماری سوچ سے باہر ہے۔اور یہ بھی یاد رکھیں ہم برصغیر کے باسیون نے مکمل جنگ ابھی دیکھی ہی نہیں 1965 اور 1971 کی جنگون کا اگر تجزیہ کیا جائے تو یہ جنگیں نہیں بلکہ جھڑپیں تھیں ۔1965 کی جنگ 6 ستمبر کو شروغ ہوئی اور 23 ستمبر کو اختتام کو پہنچی یعنی 17 دن کی اس مد بھیڑ کو ہم جنگ کہتے ہیں۔اس قلیل مدتی جنگ میں پاکستان کے تقریبا 4 ہزار جبکہ بھارت کے تین ہزار لوگ مارے گئے۔1971 کی جنگ 3 دسمبر کو شروغ ہوئی اور 16 دسمبر کو ختم ہوگئ اس معرکے میں تقریبا 9 ہزار پاکستانی جبکہ 26 ہزار کےقریب بھارتی و بنگالی مارے گئے۔آپ کبھی ٹھنڈے دماغ کے ساتھ 13 اور 17 دن کی ان قلیل جنگون کو پورپ کے 4 اور 6 سال جاری رہنے والے ان لمبی جنگون سے موازنہ کیجئے ۔ان 3 سے 7 ہزار اور 9 سے 26 ہزارلاشون کو یورپ کے ساڑھے 4 کروڑ اور 7 کروڑ لاشون کے سامنے رکھ کر دیکھ لیں۔آپ لاہور اور ڈھاکہ حملے کا موازنہ ہیروشیما و ناگاساکی سے کرکے کچھ دیر کے لئے سوچ لیں اصل جنگ کیا ہوتی ہے آپ کو لگ پتہ جائےگا۔دراصل ہم برصغیر کے لوگ جنگ کے نام سے بھی ناواقف ہیں ۔ہم ہرسال، چھ مہینے بعد ایٹم بم نکال کر دھوپ میں بیٹھ جاتے ہیں۔ہم دونون ممالک ایٹم بم بناکرخود کو ایٹمی ملک کہہ کر ایک دوسرے کو ڈرانے میں مصروف ہیں ،ہم کبھی کشمیر فتح کرنے کے نعرے لگاکر ،کبھی دہلی فتح کرنے کا خیالی پلاو پکا کر خود کو ہیرو ثابت کرنے میں لگے ہیں تو کبھی باورنڈری کے اُس پار اگر ایک چڑی بھی مارا جائے تو ہماری پڑوسی ملک ہمیں نیست و نابود کرنے کی دھمکیان دینے لگتا ہے مگر جنگ و جدل کے دیرپا تباہی و بربادی کے مناظر ہم نے ابھی تک دیکھے ہی نہی ۔ایٹم بم کی تباہی کیا ہوتی ہے اس کا ہمیں الف اور ب کا پتہ نہیں ۔ یہ قوم اب ہیروشیما و ناگاساکی جیسے تباہی کا منتظر ہے اسی لئے باونڈری کے اس پار اور اُس پار جذباتی عوام جنگ کے نعرے لگانے میں مصروف ہیں۔خُدارا زرا ہوش کے ناخُن لیں اور جوش کی بجائے ہوش سے ایک بار پھر جنگ زدہ اقوام کا مطالعہ کرین ۔جنگ کیا ہوتی ہے اور اس کے ہولناک نتائج کیا ہوتے ہیں سب کچھ پتہ لگ جائے گا۔ آمن و اشتی ہی میں آفیت ہے اور خُدا کے لئے جنگ کی اس چھنگاری کو بجھانے کے لئے اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کریں تاکہ دونوں ممالک جنگ و جدل کی بجائے اچھے پڑوسیوں کی طرح رہ سکیں اور ترقی کرسکیں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔