دادبیداد ……بیرونی امداد کا معّمہ

موسمیاتی تغیر ، عالمی حدّت اور دیگر وجوہات کی بناء پر گلیشیئر پگھلنے سے بننے والی جھیلوں کے یکدم پھٹنے کے نتیجے میں آنے والے تباہی کو روکنا عالمی سائنسدانوں کے لئے کوئی مشکل مسئلہ نہیں سیلابوں سے پہلے آبادی کو خبردار کرنے کے جدید آلات بھی موجود ہیں تاجکستان، نیپال، بھارت اور چین جیسے ممالک میں ان سائنسی ایجادات سے فائدہ اُٹھایا جاتا ہے پاکستان میں اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں نے ایسے ہی آلات کو 2009ء سے 2014ء تک آزمائشی بنیادوں پر ٹیسٹ کیا ٹیسٹ کی کامیابی کے بعد 40ملین ڈالر کا بڑا منصوبہ منظور کیا اکتوبر 2016ء میں اس منصوبے پر عملدرآمد کا آغاز ہونے والا تھا اگر ایسا ہوتا تو ملاکنڈ ڈویژن اور گلگت بلتستا ن میں 300مقامات پر جدید آلات نصب کرکے سیلاب کی پیشگی اطلاع دینے کا موثر ترین سسٹم لگایا جاتا جو 2017ء سے کام شروع کرتا شرط یہ تھی کہ گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا بڑے منصوبے کو اپنا نے اور ذمہ داری لینے کے لئے ماحولیات کے محکموں کی وساطت سے اپنے حصے کی رقم فنڈ میں جمع کریں یہ رقم گلگت بلتستان نے 2014ء میں جمع کی جبکہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے جمع نہیں کی منصوبہ اب تک لٹکا ہواہے کیونکہ اس کے شریک کار محکمے چار ہیں اقوام متحدہ کی طرف سے گرین کلائمیٹ فنڈ (GCF)ہے حکومت پاکستا ن کی طرف سے کلائمنٹ چینج یعنی موسمیاتی تغیر کی نئی وزارت ہے گلگت بلتستان کا محکمہ ماحولیات بھی شریک کار ہے خیبر پختونخوا کا محکمہ ماحولیات بھی شریک کا ر ہے آزمائشی پراجیکٹ میں وفاقی حکومت نے اپنا حصہ نہیں مانگا خیبر پختونخوا کی حکومت نے بھی اپنا حصہ نہیں مانگا اس لئے فنڈ آیا آزمائشی پراجیکٹ پر لگایا گیا ماہرین نے اس پر کام کیا اور بہترین نتائج دے دیئے 2014ء میں 40ملین ڈالر 3ارب روپے بنتے تھے 2019ء میں ڈالر آسماں کو چھونے کے بعد 5ارب روپے سے اوپر کا حساب کتاب ہے اس حساب کتا ب کو دیکھ کر وفاقی حکومت کے ذمہ دار حکام اپنا حصہ مانگ رہے ہیں خیبر پختونخوا والے اپنا حصہ مانگ رہے ہیں گلگت بلتستان کی حکومت کا ایسا کوئی مسئلہ نہیں مگر ان کے حصے کا پراجیکٹ بھی کھٹائی کا شکار ہواہے گرین کلائمیٹ فنڈ کے حکام کہتے ہیں کہ پراجیکٹ کی بنیادی دستاویز میں وفاقی حکومت کا کام سہولت کاری ہے پُل بن کر فنڈ کو متاثرہ مقامات کی کمیونٹی تک پہنچانا ہے اس کے بجٹ میں وفاقی وزیر یا سیکرٹری کے لئے پراجیکٹ الاونس نہیں رکھا گیا صوبائی حکومتوں میں کام کرنے والے حکام کو بھی سہولت کار کا درجہ حاصل ہے اُن کے لئے کوئی علیٰحدہ بجٹ نہیں ہے دوسال اس جھگڑے میں ضائع ہوئے دو سال بعد وفاق اور صوبے کی طرف سے یہ مطالبہ آیا کہ ٹھیک ہے ہمیں حصہ نہ دو مگر اتنا کر و کہ پراجیکٹ کے لئے ہمارے ’’بندوں‘‘ کو اہم پوسٹوں پر لگا ؤ فنڈ کے استعمال کا اختیار ہمارے بندوں کو دیدو ، گرین کلائمیٹ فنڈ والوں نے کہا کہ ہم اشتہار دے کر انٹر ویو کر کے ماہرین کی خدمات حاصل کرینگے حکومتی نمائندوں نے کہا کہ ہم تمہیں کا م کرنے نہیں دینگے اس کھینچا تانی اور رسہ کشی میں 3سال ضائع ہو گئے پراجیکٹ کا جو سٹاف آیا ہے وہ اسلام آباد میں بیٹھ کر تنخوا اور مراعات لے رہا ہے سیلاب کی پیشگی اطلاع کا نظام (EWS)کسی ایک جگہ بھی نہیں لگا اس سال بارشیں ہوئی ہیں پہاڑوں پر برف پڑی ہے سیلابوں کا خطرہ پہلے سے زیادہ ہے اس کے باوجود شریک کار ادارے اپنی ضد پر قائم ہیں وہ کہتے ہیں پہلے ہمارا حصہ دیدو پھر آگے بڑھو گرین کلائمیٹ فنڈ میں کام کر نے والے امریکی ،یورپی اور ایشائی حکام حیراں ہیں کہ پاکستا ن کی حکومت کے ساتھ کس طرح کا سلوک کیا جائے اگر اکتوبر 2019ء تک یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو GCFاپنا معاہدہ منسوح کردے گا اب تک کے اخراجات کا تا وان حکومت پاکستان کے ذمے ہوگا ملاکنڈ ڈویژن اور گلگت بلتستان کے لوگ سیلابوں کی پیشگی اطلاع کے جدید نظام (EWS)سے محروم ہو جائینگے اور عالمی اداروں میں پاکستا ن کی اتنی بدنامی ہوگی جس کا اندازہ کسی کو نہیں ہے حکمران جماعت کے کسی ممبر کو ایسا مسئلہ اسمبلی میں اُٹھانے کی اجازت نہیں ہے حزب اختلاف کے صاحبزادہ ثناء اللہ اور اکرم خان درانی کو یہ مسئلہ صوبائی اسمبلی میں اُٹھانا چاہئیے متحدہ مجلس عمل کے مولانا عبدالاکبر چترالی کو یہ مسئلہ قومی اسمبلی میں زیربحث لانا چاہئیے تاکہ حکومتی ایوانوں میں دوچار گھنٹیاں بجیں اور بات صدر مملکت اور وزیر اعظم تک پہنچے ہم کشکول ہاتھ میں لیکر دنیا بھر میں گھوم رہے ہیں گھر میں آئی ہوئی 40ملین ڈالر کی خطیر رقم ٹھکراکر واپس کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا اگر اقوام متحدہ کی تنظیم 5ارب 88کروڑ کی رقم گلگت بلتستان اور ملاکنڈ ڈویژن کے اندر فراخدلی سے خرچ کر رہی ہے تو وفاقی حکومت کو کیا تکلیف ہے ؟ کلائمیٹ چینج کی وزارت 5سالوں سے اس فنڈ کو کس لئے روک رہی ہے ؟
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔