دادبیداد…پاک فوج اورریڈیو پاکستان

پاک فوج اورریڈیو پاکستان کا چو لی دامن کا ساتھ ہے اس وقت مشرقی سر حدوں پر فو جیں آمنے سامنے ہیں دشمن زخمی ہو چکا ہے اونٹ کی طرح بدلہ لینے کے لئے مو قع ڈھونڈ رہا ہے غا لب گمان یہ ہے کہ بھارت میں انتخابی مہم ختم ہونے تک صورت حا ل اسی طرح رہے گی جنگ کا خطرہ ٹلنے کا بظا ہر کوئی امکان نہیں گزشتہ 3ہفتوں سے دونوں ملکوں کے درمیاں کشید گی بڑھنے کی کیفیت میں جس اہم دفاعی مور چے کی کمی شدت سے محسوس کی گئی وہ ریڈیو پاکستان کی آواز تھی 1948ء اور 1965ء کی جنگوں میں یہ بہت توا نا آواز تھی 1999کی کار گل جنگ میں بھی ریڈیو پاکستان کی خبروں اور تبصروں نے قوم کو بہت حوصلہ دیا تھا 2019ء تک پہنچتے پہنچتے ریڈیو پاکستان کو خاموش کر دیا گیا اس کے مقابلے میں دشمن کے 5بڑے سٹیشن دن رات زہر اگل رہے ہیں ریڈیو کابل اور یورپ ، امریکہ کے ریڈیو سٹیشنوں کی آ واز یں اس پر مستزاد ہیں اسلام آباد کے حاکموں کا مسئلہ یہ ہے کہ ریڈیو پر تصویر نہیں آتی اس لئے ریڈیو پاکستان کو حکومت نے 2001ء میں عاق کردیا پہلے اس کے انجینئرنگ کا شعبہ بند کردیا گیا پھر پروگراموں کا شعبہ ختم کردیا گیا آخر میں خبروں کے شعبے کو سُکڑ کر رکھ دیا گیا درحقیقت انجینئرنگ کے شعبے کی بندش ریڈیو پاکستان کی طبعی موت تھی اے ایم ٹرانسمیٹروں کے ذریعے ریڈیو کی آواز ملک کے طول وعرض میں پہنچتی تھی سرحد پار بھی سُنی جاتی تھی بھارت ، افغانستان ،وسطی ایشیاء اور ایران میں سننے والوں کے لئے خصوصی پروگرام نشر ہوتے تھے ریڈیو پاکستان پشاور کے صدا کار عبداللہ جان مغموم (مرچکی)اور شاہ پسند خان اب تک جلال آباد، کابل اور چترال تک سامعین کو یاد ہیں ریڈیو پاکستان پشاور کے ساتھ ریڈیو آزاد کشمیر تراڑ کھل ، ریڈیو پاکستان اسلام آباد ، ریڈیو پاکستان لاہور اور ریڈیوپاکستان کوئٹہ کے پروگرام اور ڈرامے بھی کابل ، جلال آباد اور چترال تک سُنے جاتے تھے اشفاق احمد کا پروگرام تلقین شاہ چترال کے سامعین کو اب بھی یاد ہے نور جہاں کی آواز میں ’’میرے وطن کے سجیلے جوانو‘‘ اور’’اے مرد مومن جاگ تیرا اب وقت شہادت ہے آیا‘‘ جیسے مقبول نغمے ہم نے ریڈیو پاکستان سے سُنے ہوئے تھے بزرگوں کو اب تک یاد ہے جب شکیل احمد کی آواز گونجتی تھی ’’یہ ریڈیو پاکستان ہے اس وقت شام کے 6بجے ہیں اب آپ شکیل احمد سے خبریں سُنیے پاکستان کے مسلح افواج نے آج صبح دشمن کا بڑا حملہ ناکام بنا دیا پاک فضائیہ نے دشمن کے 3طیاروں کو مار گرایا ادھر سرحد پار سے خبر آئی ہے کہ پاک فضائیہ کے جانبازوں نے دشمن کے دو ہوائی اڈوں کو بھی نشانہ بنایا ہے ‘‘شکیل احمد کی آواز ریڈیو لائبریری میں محفوظ ہوگی اُن کی آواز میں جے ایف 17-تھنڈر جیسی گھن گرج تھی اس آواز کی ہیبت کو کاغذ پر منتقل کرنا کسی کے بس میں نہیں 2001ء میں اے ایم ٹرانسمیٹروں کو بند کرکے 25کلومیٹر اور 50کلومیٹر رینج کے ایف ایم ٹرانسمیٹرمتعا رف کراتے وقت اسلام آباد کے حاکموں نے کہا تھا کہ ریڈیو کا زمانہ ختم ہوگیا اب ٹی وی کا زمانہ ہے یہ وہ لو گ تھے جن کو وطن عزیز پاکستان کا جغرافیہ معلوم نہیں تھا ہماری سرحد وں پر بسنے والی آبادی کا علم نہیں تھا سرحد پار سے آنے والی اطلاعات سے وہ بالکل بے خبر تھے 18سال گذرنے کے باوجود اب بھی بلوچستان ،سند ھ ، پنجاب، کشمیر اور خیبر پختونخوا کے سرحدی علاقوں میں 85فیصد آبادی کے پاس ٹیلی وژن کی سہولت نہیں ہے انٹر نیٹ کی سہولت بھی میسر نہیں فیس بُک ،ٹوئیٹر اور دیگر سہولیات سے بھی یہ آبادی بے خبر ہے اس آبادی کے پاس ٹرانسیسٹرموجو د ہیں گھر پر بھی دکان میں بھی ، راہ چلتے موٹر میں بھی یہ آبادی ریڈیو سنتی ہے ریڈیو سری نگر ، آکاش وانی ، آل انڈیا ریڈیو ، بی بی سی ، ریڈیو آپ کی دنیا ، ریڈیو کابل، ریڈیو ایران زاہدان ، وائس آف جرمنی ڈوئچے ویلے ریڈو چائنا انٹر نیشنل وغیرہ بیحد شوق سے سُنے جاتے ہیں مگرریڈیو پاکستان کی آواز کو خاموش کردیا گیا ہے اس لئے اُن کو تصویر کا وہی رُخ سنایا جاتا ہے جو آکاش وانی اور آل انڈیا ریڈیو سے نشر ہوتا ہے وزارت اطلاعات کے ایکسٹرنل پبلسٹی وِنگ میں مانیٹرنگ کا شعبہ تھا وہ بھی بند کر دیاگیا ہے اسلام آ باد میں فیس بک اور ٹوئیٹر استعما ل کرنے والے حکمرانوں کا شاید یہ خیال ہو کہ کابل ، جلال آباد ،پلوامہ ،اننت ناگ اور چترال میں بھی ساری آبادی ٹیلی وژن کے سامنے بیٹھی ہے سمارٹ فون سب کے ہاتھوں میں ہے سب کی انگلیاں ٹویٹ کر رہی ہیں مگر ایسا نہیں ہے دیہاتی آبادی میں اب بھی ریڈیو ہی سب سے مقبول ذریعہ ابلاغ ہے اگر ایسا نہ ہو تا تو ’’ریڈیو آپ کی دنیا ‘‘ خاموش ہوچکی ہوتی اکاش وانی اور آل انڈیا ریڈیو بھی بند ہو چکے ہوتے مگر ایسا نہیں ہے چیف آف آرمی سٹاف جنر ل قمر جاوید باجوہ اور انٹر سروسز پبلک ریلیشنر کے سربراہ جنرل آصف غفو ر اگر ریڈیو پاکستان کو دو بارہ 1965ء کی طرح طاقتور دفاعی مورچہ بنانے پر توجہ دیں تو ہماری سرحدوں پر رہنے والے عوام اور سرحد پار ہمارے ساتھ ہمدردی رکھنے والے عوام غیر وں پر انحصار کی جگہ ہماری نشریات سن سکینگے فوری ضرورت تین اقدامات کی ہے پہلا کام یہ ہے کہ ملّا فضل اللہ کے نام سے شہرت پانے والے ایف ایم ٹرانسمیٹروں کی جگہ طاقتور اے ایم ٹرانسمیٹروں کو دوبارہ فغال بنایا جائے دوسری ضرورت یہ ہے کہ خبروں اور تبصروں کے شعبے کو مانیٹرنگ کے نظام سے منسلک کرکے دشمن کے پروپیگینڈے کا موثر جواب دیا جائے تیسری اہم بات یہ ہے کہ پروگرام کے شعبے کو دوبارہ بحال کرکے ریڈیو پاکستان کو ایک بار پھر تلقین شاہ،مر چکئے اور شاہ پسند خان جیسے مقبول پرگرام پیش کرنے کے قابل بنایا جائے یاد رہے پاک فوج اور ریڈیو پاکستان کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور ریڈیو پاکستان ہمارا موثر دفاعی مورچہ ہے

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔