حقیقت بزبان عام….اس نے غم بھرے چہرے پر مسکراہٹ کا مکھوٹا پہننے کی ناکام کوشش کی اور وہاں سے چلی گئی۔

…………خالد محمود ساحرؔ……..

جب بھی میں کسی پل کے ساتھ،بازار میں،دفتروں کے سامنے،مسجدوں کے باہر کسی بھیک منگے کو دیکھتا ہوں تو میرے ایک دوست کی بات جو میں نے ضرب لمثل کی طرح رٹ رکھا ہے اور موقعے کی مناسبت سے استعمال بھی کرتا ہوں میرے کانوں میں گھونجتی ہے۔
قریباََ ڈھائی سال پہلے کی بات ہے کہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ چھٹہ بختاور اسلام آباد کے ایک چھوٹے تفریحی پارک پرگیا تھا۔اس چھوٹی سی پارک میں لوگوں کے لئے میز کرسیاں، بڑی ٹی وی سکرین و دیگر اسائشیں موجود تھیں۔شام کو مقامی لوگ اپنے گھر والوں کے ساتھ وہاں تفریح کے لئے آتے۔
درمیانی شام کو ہم بھی وہاں پہنچے اور کونے کی کرسیاں دھر لی۔لگ بھگ تیس لوگوں کے بیٹھنے کو گول میز اور کرسیاں لگائی گئی تھی ایک تہائی چھوڑ کر باقی سب پر لوگ نشست فرما تھے ان کے لباس کا ڈھنگن کی معاشرتی معیار کی عکاسی کررہی تھیں میں اپنے سوچ کی کسوٹی میں ان کو پرکھنے کی کوشش کررہا تھا۔
اس اثناء میں ایک نو عمر لڑکی پھٹے گند آلود کپڑے رفو کردہ دوپٹہ پہن کر نمودار ہوئی۔ پُرانے لباس اُس کی شکست وریخت حالت کو ظاہر کررہی تھی۔وہ ایک بھکارن تھی اُس کے ساتھ ایک چھوٹی لڑکی تھی جو اُس کی بہن معلوم ہوتی تھی۔
اس لڑکی نے اپنی بپتا سنا کر بھیک مانگی۔ کسی نے چھٹے نہ ہونے کا بہانا کیا، کسی نے اُس کی آواز ان سنی کردی اور اُسے جھٹلادیا تو کسی نے اُسے دھتکارا،بھلا بُرا کہا اور بھکاری ہونے کا احساس دلایا۔
میرے زہن میں ایک سوال گردش کررہی تھی کہ اللہ نے ہم سب کو ایک جیسا بنایا دوسروں کے درد کو محسو س کرنے کی حس عطا کی۔
ؔ درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
معاشرتی تقسیم کی وجہ سے یہ امتیازی سلوک کیوں؟
کیوں ان لوگوں کو حقارت سے دیکھا جاتا ہے؟
اگر میں بڑا آدمی بن جاو ں تو اپنی کمائی کا آدھا حصہ……………….
یہ سب میری تخیلاتی دنیا تک محدود تھی حقیقت میں ان سوالوں کا جواب نہیں۔
وہ لاچار لڑکی تذلیل کا شکار ہورہی تھی لوگ تعنے کس رہے تھے۔شرم کے مارے اُس کے گال سرخ پڑ گئے تھے اس کی آنکھوں میں چمکتا ہوا آنسو کا ہر قطرہ اپنے اندر ایک خاموش طوفان لئے تھا۔
اُس نے ہماری طرف دیکھا لیکن ہم سے مانگنے ہمت نہ کر سکی اور وہاں سے جانے لگی۔
ؔ بہت بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے
میر ے دوست نے اُ س کو واپس بلا کر کچھ روپے اُس کو دے دئے اورشفقت کا ہاتھ اس کے سر پر پھیرا۔اس نے غم بھرے چہرے پر مسکراہٹ کا مکھوٹا پہننے کی نا کام کوشش کی اور وہاں سے چلی گئی۔
اُس کے جاتے ہی ایک آدمی نے کہا کہ یہ بھکاری ناٹک کے ماہر ہیں۔بھیک مانگنا ان کادھندا بن چکا ہے ان کو ایک روپیہ بھی نہیں دینا چائیے۔ تو میرے دوست نے صرف ایک جملہ کہا اور جب بھی میں ایسے کسی تکلیف زدہ انسان کو دیکھتا ہوں تو وہ الفاظ میرے کانوں میں گھونجتی ہیں۔
”اللہ نے ہمیں دینے سے اپنا ہاتھ نہیں روکا تو ہم بھی کسی کو کچھ دینے سے ہاتھ نہ روکے۔دس روپے دینے سے ہم پر کچھ فرق نہیں پڑے گا لیکن شاید اس دس روپے سے کسی غریب بچے کو ایک وقت کانوالہ میسر ہو“
اللہ تعالیٰ نے جن کو عزت،شہرت اور مال وزر عطا فرما یا ان کی آزمائش کے لئے بعض کو ان چیزوں سے محروم رکھا۔مفہوما َ جن کے پاس مال و دولت ہے وہ اس کا کچھ حصہ ان لوگوں کو مدد پہنچانے میں خرچ کریں اسی میں اللہ کی رضا مند ی ہے۔
اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ ان دونوں میں سے کس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ان کی مدد کرتے ہیں یا ان کو دھتکارتے ہیں لیکن ایک بات طے ہے کہ جو ذات عطا کرتا ہے وہ لے بھی سکتا ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔