جشنِ نوروزِ عالم افروز

   بہرام علی شاہ………. کراچی…
سب سے پیشتر تمام اہل عالم کو دل کی گہرائیوں سے نوروزِ عالم مبارک ہو. دعا ہے کہ جس طرح نوروز کی آمد کے ساتھ ساتھ موسم بہار کا آغاز پھول اور کلیوں کی مہک سے ہو جاتا ہے بلکل اسی طرح تمام عالمِ انسانیت کے قلوب میں غمِ عشق کے ہواؤں کی آمد آمد ہو جس سے نہ صرف محبت و شفقت کی مہک عوالمِ شخصی کے ہر سُو پھیل جاۓ. بلکہ امنِ عالم کی صورت میں بہارِ عالم  کی بھی ظہورِ دلپزیر ہو.
قرآن شریف میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ…
” بے شک آسمانوں اور زمین میں ایمان والوں کے لیے نشانیاں ہیں. رات اور دن کے آگے پیچھے آنے جانے میں…..پھر اس سے زمین کو اس کے مر جانے کے بعد زندہ کیا اور ہواؤں کے بدلنے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں”. ( 45: 3…5 ). دوسری جگہ فرماتا ہے.” ہم عنقریب ان کو اطرافِ عالم میں اور خود ان کے ذات میں بھی اپنی نشانیاں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جاۓ گا کہ یہ(ہدایت) حق ہے. ( 42 : 53 )
حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ… “اللہ تعالٰی نے اپنی دین کی بنیاد اپنی خلق کی طرح رکھی ہے, تاکہ اس کی مخلوق سے اس کے دین کی دلیل لی جا سکے اور اس کے دین سے اس کی واحدانیت پر دلیل لی جا سکے”.
کہتے ہیں کہ خدا کے کام اور کلام میں کوئی تضاد نہیں ہے. یعنی عالمِ خلقت اور آسمانی صحیفوں میں کوئی تضاد نہیں. مسلم مفکریں کے نزدیک بھی عالمِ خلق, عالمِ شخصی اور عالمِ قرآن, تینون میں پائی جانے والی شہادت کو مستند تصور کی جاتی ہے. لہذا دانش کا تقاضا بھی یہی ہے کہ نوروز کو بھی ان تینوں عوالم کی روشنی میں دیکھنے کی جسارت کریں.
نوروز فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی “نۓ دن” کے ہیں. سیارہ زمیں جب سورج کے گرد اپنا ایک چکر مکمل کرتا ہے تو 21 مارچ کو بُرجِ حمل سورج کے مقابل ہونے لگتا ہے. زمیں میں موسمِ بہار کی آمد پر دنیا کے مختلف ممالک میں جشنِ نوروز منایا جاتا ہے.
نوروز ایک قدیم تہوار ہے. ایرانیوں اور مصریوں کے یہاں جشنِ نوروز کو جوش و خروش سے منائی جاتی ہے. تاریخی نقطہ نظر سے دیکھا جاۓ تو نوروز عالمِ انسانیت کا مشترکہ وَرثہ ہے. دنیا کے کم و بیش نصف حصے میں منائی جانے والی یہ تہوار اپنی وسعت پزیری کی بدولت نہ صرف ثقافتی اعتبار سے مقبول و معروف ہے بلکہ مذہبی اور معاشرتی اقدار میں بھی مختلف ادوار میں گہرے نقوش چھوڑے ہیں. لہذا اس آرٹیکل میں تاریخی اور ثقافتی حیثیت سے قطہ نظر مسلم مفکریں کی پیش کی گئی ایک دلچسپ پہلو پرروشنی ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے جو کہ اسلام کی عرفانی تشریح کی عکاسی کرتی ہے.
مزکورہ بالا قرآنی آیات اور حدیث کی روشنی میں اگر دیکھا جاۓ تو عالمِ خلق میں سورج ایک جگہ پر معلق ہونے کی وجہ سے زمیں اور دوسرے سیارے سورج کے گرد گومتے ہیں. سیارہ زمیں کے مختلف حصوں میں موسوں کی تبدیلی بھی اسی گردش سے ہے. اب کوئی بھی دانشمد یہ نہیں کہے گا کہ چونکہ 21 مارچ کے بعد سورج کی روشنی اور گرمی میں اضافہ ہونے کی سبب سے زمیں پر بہار آ گئی ہے. بلکہ ہوشمند سمجھتا ہے کہ سورج کی روشنی اور گرمی میں کوئی کمی بیشی نہیں, بلکہ یہ زمیں کی گردش ہی ہے جس کی وجہ سے موسم بدلتے رہتے ہیں. دن رات, بہار و خزان, بارش و ہریالی, سیلاب و خشک سالی یہ سب احوال زمیں کی روزانہ اور سالانہ گردش کی مرہون منت ہے. جس طرح سورج ایک جگہ پر معلق ہے اور سیاروں کی گردش کی وجہ سے وہاں احوال وقوع پزیر ہوتے ہیں بلکل اسی طرح نفوسِ انسانی بھی انبیاء و اولیاء کی تعلیمات سے مختلف ادوار میں انفرادی اور اجتماعی احوال و کیفیات سے گزرتے ہیں. کیونکہ مزکورہ بالا حدیث کی روشنی میں اگر دیکھا جاۓ تو عالَمِ خلق میں سورج عالّمِ دین میں پیغمبر کی مثال پر ہے. چاند اور ستارے اولیاء و مومنیں کی مثالیں ہیں. لہذا جتنے بھی پیغمبر دنیا میں تشریف لاۓ ان میں نورِ نبوت اور ہدایت میں کوئی فرق نہیں ہے لیکن عالمِ انسانیت کے نفوس میں ان کی تعلیمات کی اثر پزیری کے اعتبار سے تفریق کی جاتی ہے. جس دور میں نفوسِ انسانی کی روحانی و عقلانی گردش جس نہج پر تھی نورِ نبوت اور ہدایت کی اثر پزیری بھی اتنی ہی رہی. البتہ یہ اثر پزیری  بیک وقت انفرادی اور اجتماعی بھی ہو سکتا ہے. جس طرح موسم خزان میں اگر دیکھا جاۓ تو سارے درخت آپ کو یکسان نظر آئیں گے. زندہ اور مردہ درخت میں شناخت مشکل ہو جاتا ہے. لیکن جونہی موسم بہار آجاۓ تو سوکھے ہوۓ اور کھلے ہوۓ درخت کی پہچان آسان ہو جاتی ہے. اسی طرح تعلیم و تربیت کے آفاقی اصولوں کے تحت جن لوگوں نے انبیاء و اولیاء کی اطاعت کی وہ روحانی و عقلانی جشنِ نوروز کو اپنےعالمِ شخصی میں محسوس کرتے رہے.
 گردشِ زمین کی وجہ سے زمین کے مختلف حصے سورج کے قریب و دور ہونے کی وجہ سے وہاں دن رات اور بہار و خزاں کے مرحلے گزتے ہیں. بلکل اسی طرح نفوس انسانی بھی ہدایت و تعلیم و تربیت کی قبولیت کی وجہ سے انبیاء و اولیاء سے قریب و دور ہوتے ہیں.
جس طرح نظامِ کائینات ایک مسلسل عمل ہے بلکل اسی طرح نظامِ دین بھی ایک مسلسل عمل ہے. جسے ہم کسی وقتِ معین سے شروع نہیں کر سکتے بلکہ یہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ ایسا ہی رہے گا. نظام ہدایت سب کے لیے یکسان ہے. کیونکہ خدا کی خدائی اور سننت میں کوئی تبدیلی نہیں ہے. ہاں البتہ تغیر و تبدل کا دارومدار نفوس انسانی کی روحانی و عقلانی  گردش اور اثر پزیری سے ہے. جسطرح سورج جسمانی ظہور کی صورت میں فیوض و برکات کا سرچشمہ ہے بلکل اسی طرح انبیاء و اولیاء جسمانی ظہور کے ساتھ روحانی فیوض و برکات کے سرچشمے ہیں. جس طرح سیارۂ زمیں سورج کے گرد گردش کی وجہ سے سورج کی روشنی اور گرمی کو قبول کرتے ہوۓ بہار اور خوشگوار موسم کی طرف رُخ کر لیتاہے بلکل اسی طرح جو نفوس انبیاء و اولیاء کی فرمانبرداری میں زندگی گزاتے ہیں ان کے عوالم شخصی کا روحانی و عقلانی موسم بہار کی مانند لگتی ہے. ان کے ہاں ہر پل جشنِ نوروز کی مانند لگتی ہے.
الغرض مسلم مفکریں کے نزدیک حقیقی جشنِ نوروز نفوسِ انسانی کی انفرادی روحانیت میں پائی جاتی ہے. ظاہری جشنِ نوروز اس کی ایک مثال ہے. یاد رہے مثال اور ممثول لازم و ملزوم ہیں. مثال ممثول کی علت ہے اور ممثول مثال کی. لہذا دونوں کی افادیت معلوم سے نامعلوم کی شناخت کی مانند ہے جو کہ مذکورہ بالا حدیث کی روشنی میں ایک دوسرے پر قائم ہیں.
دعا ہے کہ ہر مومنِ مخلص کی ابتدائی روحانی شادمانی و مسرت اس کے لیے حقیقی جشنِ نوروز کی مانند ہو. نور ہدایت کی حقیقی فرمانبرداری سے ان کے ظاہری اور باطنی دنیا میں موسمِ بہار کی آمد سے باغِ بہشت کا ایک ایسا نظارہ ہو جہاں پھولون کی مہک اور پرندوں کے نغمے کبھی ختم نہ ہوں. آمین…. آخر میں ایک بار پھر جشنِ نوروز مبارک🌹🌸🌷🌺🌹
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔