دھڑکنوں کی زبان …..سرکاری سکولوں میں مثبت تبدیلیاں 

سرکاری سکولوں کے درد رکھنے والے اساتذہ کو اس بات کا قلق تھا کہ سر کاری سکولوں میں معیار تعلیم روز بروز گر رہا ہے ۔۔وجوہات اس کی بہت ساری تھیں ۔ان میں اساتذہ کی کمی اور محکمے کی مجبوریاں جس میں عملہ کم ہونے کی وجہ سے سکولوں میں جا کراساتذہ کے کام کی نگرانی نہیں ہو تی تھی ۔ لیکن شکرہے کہ مانیٹرنگ آئی اور این ٹی ایس کے ذریعے قابل اساتذہ کی بھرتیاں شروع ہوئیں ۔محکمے کے آفیسر سکولوں میں جا کر اساتذہ کی کارکردگی کی نگرانی کرنے لگے ۔اس بار مجھے امتحانی ڈیوٹی پہ بھیجا گیا ۔۔سٹیشن اتنا دور تھا کہ وہاں سے آگے پاک سر زمین ختم ہوتی تھی۔امتحانی ھال میں پبلک اور گورنمنٹ سکولوں کے بچے امتحان دے رہے تھے ۔۔دسویں کا پہلا پرچہ تھا۔۔ میں ھا ل سے باہر بیٹھا تھا۔۔ پرچہ ختم ہو ا تو ایک بچی میرے پاس آئی اور کہا ’’سر جی !ھال میں نقل نہیں ہونی چاہیے ‘‘۔۔ میں تڑپ کے رہ گیا اور جھٹ سے پوچھا کہ بیٹا! آپ کونسے پبلک سکول کی ہیں ۔۔انہوں نے ہنس کرکہا ۔۔سر ! میں اسی گورنمنٹ سکول کی ہوں ۔مجھے اپنے کانوں پہ شک ہوا اس لئے کہ ہم نے گورنمنٹ سکولوں کے بارے میں شکایت ہی سنی ہے ۔معیار کا نہ ہونا ۔۔سبق کا نہ ہو نا سنا ہے ۔۔اساتذہ کی غفلت سنی ہے۔ کسی باپ کے بارے میں نہیں سنا کہ وہ اپنے قابل بچے کوسر کاری سکول میں داخل کر رہا ہے ۔۔میں اس بچی کی آنکھوں میں ڈوب سا گیا اور کہا بیٹا ایسا ہی ہوگا ۔تم قوم کی عظیم بیٹی ہو ۔پھر میں نے اندازہ لگا یا کہ قوم کی یہ عظیم بیٹیاں اور بیٹے ایک سے زیادہ تھے ۔۔پھر میں نے سوچا کہ پبلک سکول کے بچے ان کے آگے موم کے مہرے تھے ۔یہ خوش آئیند ہے ۔یہ نیک شگون ہے ۔یہ حکومت اور محکمے کی پرخلوص کوشش کا نتیجہ ہے کہ سرکاری اداروں میں کام ہو رہا ہے ۔امتحانی ھالوں میں امتحانی عملے کا روایتی پروٹوکول ختم ہورہا ہے ۔پھر بھی محکمے کو چاہیے کہ ان اساتذہ کی نشاندہی کریں جو امتحانی سنٹروں میں کسی قسم کے مراعات سے استفادہ کرتے ہیں ۔اس بار DEOاور DYDEO نے مسلسل امتحانی سنٹروں کادورہ کیا ۔DYDEO قاری حافظ نور اللہ صاحب نے دور دور کے سنٹروں کا مسلسل دورہ کیا اور امتحانی سرگرمیوں کی نگرانی کی۔ تبدیلی ایک دن میں نہیں آتی ۔یہ ایک مسلسل عمل ہے اس کو آنی چاہیے ۔کالجوں میں آئی ہے ۔۔میرٹ پہ د اخلہ ہوتا ہے ۔۔معیار تعلیم بہتر ہوا ہے اگر سکولوں میں اس رفتار سے تبدیلی آتی رہی تو معیار تعلیم بہتر ہو جائے گا اور لوگوں کی توجہ جب ان اداروں کی طرف ہو گی پھر کوئی اپنے بچے کو کسی دوسرے ادارے کی طرف نہیں لے جائے گا ۔البتہ یہ محترم اساتذہ پرمنحصر ہے کہ وہ جان جوکھوں میں ڈال کر اعلی معیار بنانے تک محنت کریں پھر مسئلہ نہیں ہوگا ۔معیار بنتا ہے تو گرنے نہیں دیا جاتا ۔۔محکمے کے آفیسروں کوبھی اپنے وژن اور صلاحیتوں میں اضافہ کرناہوگا ۔ان کوان اساتذہ کی نشان دہی کرنی ہوگی جو مخلص ہیں اور کام کرتے ہیں ۔اور ان کی بھی جو محکمے پہ بوجھ ہیں ۔اس تیز دور میں قوم کے استاد کو بھی ان صلاحیتوں کا مالک ہونا چاہیے جو دور تقاضہ کرتا ہے ۔۔آج ایک منٹ کا ضائع کرنا سینکڑوں سالوں کاضیاع ہے ۔آج قابلیت اور صلاحیت کا دور ہے ۔والدیں کو کم از کم اساتذہ کا ہاتھ بٹانا چاہیے ۔اپنے بچوں سے کم از کم یہ پوچھیں کہ بیٹا ! بے شک کم نمبر لے لو ۔۔مگر نقل کرکے اپنے آپ کودھوکہ مت دو ۔ڈگری مت لو ۔۔اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرو ۔سکولوں کے اندر جزا اور سزا کا تصور تھا ۔اس کو پھر سے اُجاگر کرنا چاہیے ۔۔استاد کوایک بہانہ مل گیا ہے ۔کہ سزا پر پابندی ہے ۔دنیا کا کوئی ملک ، کوئی ادارہ ،کوئی خاندان ،کوئی تربیت گاہ اور کوئی محکمہ ایسا نہیں جہاں تربیت کے عمل میں ،ڈسپلن میں اور قوانیں میں جزا اور سزا کا تصور نہ ہو ۔ہر کہیں ہے مگر ہمارے ہاں الٹی گنگا ہے ۔۔ہم تشدد کو سزا کہتے ہیں ۔سزا اور خوف دلانا، اندیشہ اور غلط کرنے کا تصور اگر نہ ہو تو خالہ جی کا گھر ہوگا ۔یہ قوم وحشی بن جائے گی ۔معاشرہ جنگل بن جائے گا ۔قوم بے تربیت ہوگی ۔جس کو دنیا کی تاریخ وحشی کہتی ہے یا غیر تربیت یافتہ۔۔ جس کا نام و نشان مٹنا یقینی امر ہے ۔اساتذہ کو مثبت سزا سے کسی نے نہیں روکا ۔جس طرح فوج جنگ لڑتی ہے ۔۔پولیس مجرموں سے لڑتی ہے اس طرح استاد جہالت سے لڑتا ہے ۔یہ سب سے مشکل لڑائی ہے ۔ ا س میں اس کی اعانت چاہیے ۔ہم اپنے محکمے کے ساتھ کھڑے ہیں والدین سے گذارش ہے کہ اساتذہ کے ساتھ کھڑے ہوجائیں ۔انشا اللہ یہی سرکاری ادارے ہیں جو تربیت کے اصل ادارے ہیں ۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔