بجلی سے محروم پست وارڈپ دروش کے خواتین اور بچوں کا احتجاج

چترال ( محکم الدین ) قیام پاکستان سے اب تک بجلی کی روشنی سے محروم گاؤں پست وارڈپ دروش کے باشندوں نے بالا خر خواتین اور بچوں سمیت احتجاج کا راستہ اختیار کیا ہے ۔اور اس سلسلے میں انہوں نے پیر کے روز سے اوسیاک پل پر دھرنے کا آغاز کیا ہے ۔ اور کہا ہے ۔ کہ گاؤں پست وارڈپ کو بجلی فراہم کئے بغیر وہ اپنا دھرنا ختم نہیں کریں گے ۔ چاہے ان کی جان کیوں نہ چلی جائے ۔ دھرنے کے جگہے پر مردو خواتین کی بہت بڑی تعداد موجود تھی ۔اورباپردہ خواتین انتہائی مجبوری کے عالم میں یہ راستہ اختیار کئے ہوئے تھے ۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے وارڈپ اور ملحقہ دیہات کے ویلج نائب ناظم ریٹائرڈ صوبیدار امیر فیاض نے کہا ۔ کہ 120گھرانوں پر مشتمل اس گاؤں کے ساتھ حکومت کی طرف سے ہمیشہ سوتیلی ماں کا سلوک ہوتا رہا ہے ۔ یہ گاؤں بجلی اور پانی دونو ں سے محروم ہے ۔ اب تک تین افراد دریا سے پانی لاتے ہوئے بے رحم موجوں کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ۔ جبکہ مزید جانی نقصانات کا خدشہ موجود ہے ۔ جبکہ بجلی سے یہ علاقہ یکسر محروم ہے ۔ اور کوئی بھی عوامی اور حکومتی نمائندہ ان لوگوں کی آہ و زاری سننے کیلئے تیار نہیں ۔ اس لئے لوگوں کو انتہائی مایوسی کے عالم میں خواتین اور بچوں کے ساتھ احتجاج کرنا پڑا ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ افسوس کا مقام یہ ہے ۔ کہ آدھا کلو میٹر سے کم فاصلے پر دروش شہر بجلی کے قمقموں سے چمک اٹھتا ہے ۔ اور پست وارڈپ کے باسی دور سے ان روشنیوں کو دیکھ آہیں بھرتے زندگی گزار رہےہیں ۔ اورعلاقے کو دیکھ کر پتھر کے زمانےکی یاد تازہ ہوتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بجلی نہ ہونے کے سبب بچوں کی تعلیم بری طرح متاثر ہو رہی ہے ۔ کیونکہ انہیں روشنی کی سہولت حاصل نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ اس گاؤں کودروش اور گولین گول بجلی گھر دونوں کی بجلی سے دانستہ طور پر محروم رکھا گیا ہے ۔ جبکہ یہ لوگ بجلی کے پول کی تنصیب کا کام بھی بغیر معاوضہ اپنی مدد آپ کے تحت بھی کرنے کیلئے تیار ہیں ۔ کیونکہ بجلی سے محرومی اب ان کیلئے ناقابل برداشت ہو چکا ہے ۔ امیر فیاض نے کہا ۔ کہ مظاہرین دروش مین چوک میں دھرنا دینا چاہتے تھے ۔ لیکن فی الحال انہیں اوسیاک پل پر روک دیا گیا ہے۔ جہاں انہوں نے دھرنے کی صورت میں اپنا احتجاج کا آغاز کر دیا ہے ۔ تاہم ان کے مطالبے کو حکومتی توجہ نہ ملنے کی صورت میں دروش بازار چوک میں دھرنادینے سے انہیں کوئی نہیں روک سکتا ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔