کتنے آدمی تھے؟

………….تحریر:سید الابرار سعید………….
کون کس کے ساتھ ہے، کون کس کے لئے کام کر رہا ہے، کون کس کی مدح سرائی میں مصروف ہیں، کون کس کی مخالفت پر کمر بستہ ہیں، تعریف کی وجہ کیا ہے، مخالفت کیوں ہے؟ کچھ پتہ نہیں، البتہ وجہ ترجیح کا ایک سبب موجود ہے۔ اور وہ ہے قومیت، کہ فلاں عالم میری قوم کا ہے اور فلاں نمائندہ میری براداری کا ہے۔ اور سب سے بڑا سبب بھی یہی ہے۔ 24 اپریل کو ہونے والےانٹرا پارٹی الیکشن کے بعد جمعیت علماء اسلام چترال کے کارکنان میں کچھ یہی تاثر عام ہے۔ گروپ بندی ہے،الزام تراشی ہے، سوشل میڈیا میں ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہیں، یہ قاضی نسیم کی برادری کا ہے، وہ مولانا عبدالرحمن برنس والے کی قوم سے ہیں، وووووہ مولانا عبدالشکور گروپ کا ہے۔ کچھ انعام حنیف میمن کے ہیں، وہ میمن ہاوس جغور میں اجلاس جاری ہے، ادھر قاضی برادری کی نشستن در نشستن ہے۔آیک دوسرے پر دستور کی مخالفت کا الزام دھرا جا رہا ہے۔ ووٹنگ کے وقت کتنے آدمی تھے؟ ووٹ کتنے کاسٹ ہوئے، حقیقت میں کس نے جیتنا تھا، جیت کون گیا، کس نے کس کے ساتھ کس بنیاد پر سمجھوتہ کیا، پانچ دنوں کے ” طویل ” عرصے میں یہ سب طشت از بام ہو چکا ہے۔ پشاور کے امارات ہوٹل میں کس کی کس کے ساتھ میٹنگ ہوئی، کون بک گیا،کس نے خریدا، اور کتنے میں خریدا، یہ سب راز اب راز نہیں رہے۔ بلکہ مخصوص حلقوں سے نکل کر عوام کی عدالت میں پہنچ چکے ہیں، یہ سب سن کر، دیکھ کر اور پڑھ کر” دل کے ارماں آنسووں میں بہہ گئے “اورعبدالحمید عدم بہت ہی یاد آئے۔ انہوں نے کسی ایسے ہی موقع پر کہا ہوگا۔ دل ابھی پوری طرح ٹوٹا نہیں ۔ دوستوں کی مہربانی چاہئیے ۔ ہم بھی ٹوٹے ہوئے دل کے ٹکڑوں کو جب آپس میں جوڑنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں تو پھر الطاف ضیاء ایک بار پھر تہس نہس کرکے حلقہ یاراں میں بکھیر دیتا ہے اور صاف کہتا ہے کہ ۔ اک بار اجڑ جائے تو پھر بسنا ہے مشکل۔ یہ دل ہے مرا دلی کا بازار نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہمیں کچھ دوستوں کی اور بھی مہربانی چاہئیے۔ دراصل 24 اپریل کو ہونے والے اس الیکشن کے بعد سے اب تک دوستوں کے مباحثے کا مرکزی کردار حافظ انعام میمن صاحب ہیں، جو کہ اوکھائی میمن برادری سے تعلق رکھنے والے اور کراچی کے باشندے ہیں، پہلی شادی اپنی برادری میں کی، جبکہ ان کی دوسری شادی اپر چترال سور وہت میں ہوئی، مولانا ہدایت الرحمان ایم پی اے کے جگری دوست ہیں، علاوہ ازیں انعام حنیف میمن کی بیٹی مولانا ہدایت الرحمان کی بہو ہے۔ دونوں کے درمیان رشتہ مضبوط اور دوستی پکی ہے۔ مولانا ہدایت الرحمان کو آگے کرنے میں ان کا کردار روز روشن کی طرح واضح ہے، دوررس نگاہ رکھتا ہے۔ اور خیر سے دوراندیش بھی ہے۔پانچ مرلہ زمین خریدنی ہو تو ایکڑ پران کی نظر ہوتی ہے،اور پانچ مرلہ وصول کر کے ہی دم لیتا ہے۔ اس سال ان کی نظر جماعت کی صوبائی امارت پر تھی، ضلعی سیکرٹری پر جا کر ٹھہر گئی۔ (اوراسی کو پانچ مرلہ سمجھو) مولانا ہدایت الرحمان اوران کے درمیان پارٹنرشپ بھی ہے۔ کراچی کے علاقے گلشن اقبال ڈالمیا میں ان کا مدرسہ بنام( یاسین القرآن ٹرسٹ ) فلاحی کاموں کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی مدرسے کی صورت میں فراہم کرتا ہے۔ مدرسے کے اساتذہ اور طلباء سب کا تعلق چترال سے ہے۔ اسی مدرسے کی شاخ چترال دنین گول میں اسی نام سے بنائی گئی ہے۔جہاں علاقے کی بیٹیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں، عید الاضحی کو عیدالاضحی نہیں،بلکہ آسان الفاظ میں عید بقرکہتا ہے۔عید بقر میں ٹرسٹ کے زیر انتظام شمالی علاقہ جات کے لئے وقف قربانی کا بھی اہتمام کرتا ہے۔ 2008 میں باقاعدہ کراچی میں مدرسے کی بنیاد رکھی،اس کے ساتھ ہی وقف قربانی کا سلسلہ بھی وہیں سے شروع کیا، اور تا ہنوز شمالی علاقہ جات کے لئے ان کی یہ خدمت برقرار ہے۔ شمالی علاقہ جات میں سے بھی سب سے ذیادہ چترال کو اہمیت دیتا ہے۔ اور ہر سال کم از کم 400 سے 500 تک گائیں کراچی سے چترال آکر کٹتی ہیں، بکرا،دنبہ وغیرہ ان کے علاوہ ہیں ۔ اور یقیناً چترال کا ہر طبقہ اس ریلیف سے مستفید ہو رہا ہے۔ میں خود دو گایوں اور ایک عدد بکری سے نوازا جا چکا ہوں۔ میراان سے اختلاف اصولی بنیادوں پر رہا ہے۔اور شدت سے رہا ہے۔ لیکن حقائق کا اعتراف کرنا دیانتداری کا بھی تقاضا ہے اور انسانیت کا بھی۔ لیکن آج کل جو احباب اس بات پر سیخ پا ہیں کہ انعام میمن جماعت کے ناظم عمومی کیوں بنے ہیں۔؟ اور قربانی کے گایوں کو موضوع سخن بنا کر انعام میمن صاحب پر بدگمانی کے تیر برسا رہے ہیں ۔ان کو کس بات سے تکلیف ہے۔؟ پہلی بات یہ ہے کہ وہ جماعت کے ایک دستوری راستے سے منتخب ہو کر آئے ہیں، اور دستوران کو اجازت بھی دیتا ہے،دوسری بات یہ ہے کہ اس ساری فلم میں وقف قربانی کا ذکر چہ معنی دارد۔ انعام میمن سے قربانی کا جانور چھوٹے کارکنوں سے توذیادہ بڑے حضرات نے حصہ بقدر جثہ وصولتے رہے ہیں۔ انعام میمن کے حوالے سے اگر قربانی کے معاملے میں کسی خرد برد کے ثبوت کسی دوست یا ساتھی کے پاس ہیں تو وہ اللہ کا نام لے کر سامنے آئیں، اور ان کے کریکٹر کے حوالے سے ٹھوس شواہد کی بنیاد پر بات کریں۔ ہم اس حوالے سے ان کے کردار کو سراہیں گے اور سنجیدہ طبقوں تک اس حوالے سے بات ہوگی۔ لیکن ان نادان دوستوں کا کیا کہنے، جو سوشل میڈیا میں اپنا نام استعمال کرنے سے بھی گھبرا رہے ہیں اور صرف کنیت ” مثلا ابو فلاں،ابو ڈنگاں ” کے کاندھے پر بندوق رکھ کر مخالف کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ وہ آدمی بذات خود سب سے بڑا فراڈی اور دھوکہ باز ہے جو اپنی اصلی شناخت کو تو ظاہر نہیں کر پا رہا، لیکن نکلا ہےانعام میمن کو ہٹانے،اورجماعت کو انتشار کی طرف دھکیلنے کی راہ پر ۔کوئی اگر اس معاملے میں مخلص ہے اور وہ مکمل پروف اور ثبوت کی روشنی میں کوئی کردار ادا کرنا چاہتا ہے تو اپنی اصلی صورت میں سامنے آ کر اپنا موقف بیان کریں۔ کیونکہ ہم نے اہل ” کنیت ” کی کوئی بات نہ ماننے کی ٹھان لی ہے۔ اور اس قسم کے کرداروں سے جماعت کو انتشار کی طرف جانے سے بچانے کے لیے گذشتہ روز سنجیدہ اور اہل علم حضرات کا ایک بہت ہی اہم اجلاس امارات ہوٹل پشاور میں منعقد ہوا ۔
اجلاس میں چترال کے اندر جماعت کے انتشار کا سبب بننے والے امور پر تبادلہ خیال گیا، اوران اسباب کا بغورجائزہ لینے کے لئے ایک تحقیقاتی ٹیم بھی تشکیل پائی۔ جو چند ہی دنوں میں چترال میں ہونے والے حالیہ جماعتی کش مکش کے حوالے سے اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔ اجلاس میں مولانا ظہیر الدین، مولانا سیف الاعظم کے علاوہ مولانا عبدالماجد اور دیگر علماء کرام موجود تھے۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔