درحقیقت ( ترقی کیسے ممکن ھے)

………..تحریر:ڈاکٹر محمد حکیم………

میں اس بات پر حیران ہوں۔ کہ 70سالوں سے ہمارے ملک خداداد میں وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ مختلف شعبئہ زندگی میں روزآفزون ترقی کی بجائےہم زوال پذیری کے کیوں کر شکار ہوتے جارہے ہیں؟ کیا کسی عقل شعور انسان اور معاشرہ کے کسی دانشور یا کوئی حب الوطن شخصیت نے کبھی اس کی طرف فکرو تدبر کیا ہے کہ نہیں۔ یقیناً سب کا جواب نفی میں ہوگا۔کیونکہ اس ملک کے چاروں طرف گھوم کر نظارہ اور آنکھوں سے مشاہدہ کرنے سے پتہ لگے گا کہ ہم ہر لحاظ سے کتنےپیچھے ہیں۔اور آخرکار اسکے ذمہ دار کون ہیں؟ اس کا جواب البتہ مثبت ہی میں ہوگا کیوں کہ ہم سب پاکستانی اس کے ذمہ دار ہیں۔ لیکن میرے خیال میں سب سے زیادہ ذمہ داری تعلیم یافتہ حضرات پرعائد ہوتی ہے کیوں کہ مجھے دکھ اس وقت ہوتا ہے۔کہ جب ہمارے تعلیم یافتہ با شعور افرادان نااہل اورجاہل لوگوں کو ووٹ دیکر ملک کے اس انجمن کیلئے منتخب کرتے ہیں جو ملک کے نازک اور پیچیدہ معاملات جوکہ اندرونی اوربین الاقوامی طور پر ملک کو مستحکم یا زوال پذیری کے سبب بنتے ہیں کا قانون سازی کرتا ہے۔ انکی قانون سازی ہمیں ایسی نا تمام دشواریوں میں ڈال دیتی ہے۔جس کا آج ہم سزا بھگت رہے ہیں۔ میں اس وقت بہت ہی حیران ہوتا ہوں۔ جب میں کسی بہت بڑھے پارٹی چئرمین کےساتھ اس کے سکریٹری کو دیکھتا ہوں۔کہ وہ کلی طورپرالف با لکھنے کے اور نہ پڑھنے کے قابل ہوتا ہے۔ آپ اس چئرمین سے کیا توقع کرتے ہیں۔اوراس کی سوچ و فکر کا معیار کیا ہے؟ اور کیا یہ انسان ہمارے لئے معیاری قانون سازی کرنے کے اہل ہے یا نہیں۔ قارئیں کرام ! ہمارے مقامی حکومت سے لیکر قومی اور صوبائی حکومتوں کے سطح تک ہم ان لوگوں کو منتخب کرتے ہیں۔جو بعد میں اپنے پروٹوکول کو دیکھ کر ممبرنبیؐ پر بیٹھ کر کئے گئے وعدوں کو بھول جاتے ہیں۔یوں ان کو تو سب کچھ مل جاتا ہےمگر یہ قوم سنہ 1947 میں جہاں کھڑی تھی وہاں ہی کھڑے ہونےپرمجبور ہوجاتی ہے۔ پھر شکوہ ان لوگوں سے کہ جن کو ایک بارنہیں باربار آزمایا جارہا ہے۔ اب خدارا ! سوچیں کہ آنےوالے ہر قسم کے الیکشن میں ہم ان لوگوں کو منتخب کریں جو کہ حب الوطن ہوں۔ اور پروٹوکول لینے کی بجائے پروٹوکول دینے والے ہوں۔ اس کی واحد حل صرف اور صرف یہی ہے کہ بے داغ اوراعلٰی تعلیم یافتہ کونسلرز سے لیکر ناظم تک اور صوبائی اسمبلی سے لیکر قومی اسمبلی تک ان لوگوں کوچننا جائے جو ملکی بقا اور سالمیت کا سبب بن جائیں۔ چنانچہ اسی طرح دو فائدے ہونگے۔ایک یہ کہ ملکی خزانے کی حفاظت کریں گے اورایسا قانون سازی کریں گے جو ائندہ آنے والے دنوں کیلئے پاکستان کو خطرات میں ڈالنے کی بجائے خطرات سے دور کریں گے۔یہ صرف اسطرح ممکن ہے۔ کہ قوم متحد ہوکر جس پارٹی سے بھی تعلق رکھتا ہو۔ووٹ اس کو دے دیں چاہے وہ بندہ اس کے مخالف جماعت کا ہی کیوں نہ ہو۔ مگر مدبرانہ ذہنیت کے حامل ہو۔۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔