داد بیداد…..ریٹا ئر منٹ کی عمر

شیخ سعد ی ؒ نے ایک حکایت کے آخر میں یہ سبق اخذ کیا ہے کہ باد شاہ چاہے جنگل کے ہو ں یا بستی کے وہ اپنی مرضی اور من مانی کر تے ہیں ”گہے بسلا مے بر بجند گہے یہ دشنا مے بہ بخشند“ کبھی سلام پر ناراض ہو تے ہیں کبھی گالی پر انعام دیتے ہیں یہ قول آج کل کی قو می حکومتوں پر صادق آتا ہے اور ہماری حکومت پرسب سے زیادہ صادق آتا ہے ایک سا ل پہلے حکومت نے گالی کے جواب میں اعلان کیا تھا کہ ہم نوجوانوں کو ایک کروڑ نوکریاں دینگے ایک سال گذر نے کے بعد اب خبر آگئی ہے کہ حکومت نے سرکاری ملازمین کے لئے ریٹا ئر منٹ کی عمر 60 کے بجا ئے 63 سال کر نے پر غور شروع کیا ہے اور فیصلہ عنقریب آنے ہی والا ہے اور یہ بات سلام کے جواب میں کہی جا رہی ہے تو قع یہ تھی کہ ریٹا ئر منٹ کی عمر زیادہ سے زیادہ 55 سال کر دی جائے گی وطن عزیز پاکستان کو اس بات پر بجا طور پر فخر ہے کہ ملک کی آبادی کا 60 فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے جنکی عمر یں 35 سال تک شمار کی جاتی ہیں اس نئی پود کو قوم کا اصل سرمایہ قر ار دیا جا رہا ہے 22 کروڑ کی آبادی میں اگر 13 کروڑ نئی نسل ہے اور ان میں سے اگر 4 کروڑ تعلیم سے فارغ ہو چکی ہے تو ایک کروڑ کو ملا زمت دینا بھی اونٹ کے منہ میں زیر ہ ہے 60 سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد ریٹا ئر منٹ لینے والے بوڑھوں کو 3 سال کی تو سیع دینے کا مطلب یہ ہے کہ نئی نسل مزید 3 سال نو کر یوں کے لئے انتظا ر کریگی ایک کروڑ تو نوکری دینے کی جگہ باپ کو ریٹا ئر کرکے بیٹے یا بیٹی کو نو کری دینے میں مز ید 3 سال کی تاخیر ہو گی گویا نئی نسل کو لینے کے دینے پڑ گئے ویسے تفنن بر طرف اگر یٹا ئر منٹ کی عمر 60 سال سے بڑھا کر 63 سال کر دی گئی تو ہمارے سکولوں، ہسپتالوں، کالجو ں اور دفتر وں کا وہی حال ہو گا جو سائین قائم علی شاہ کے دفتر کا ہو تا آیا ہے بڑے صاحب کے ہاتھوں میں لر زہ ہوگا،دماغ میں بزرگی کا 3 منہ والا کیڑا ہوگا، کمرخمید ہ ہو گی، ایک جیب میں کھانسی کی دوا،دوسری جیب میں شو گر کی پڑ یا اور میز پر بلڈ پریشر کی گولیاں ہو نگی دفتر اُس کے اونگھنے کی جگہ ہوگی اور سائلین، مریض یا طلبہ اس کو جگا نے کی نا گو ار ڈیوٹی پر مامور ہو نگے وہ 3 سال مزید مکھی پر مکھی ما کر گذار ے گا 3 سالوں میں دفتر کا ستیاناس ہو کر رہے گا اچھے کاروباری ادارے، بینک اور کار پوریٹ سیکٹر کے دفاتر بزرگوں اور بوڑھوں کی کا ہلی اور بیکاری سے چھٹکا را پانے کے لئے خصو صی سکیمیں متعارف کر اتے ہیں گولڈن ہینڈ شیک کے نام پر یکمشت ڈھیر ساری رقم بزرگ کی جھولی میں ڈال کر اس کو قبل از وقت یعنی 50 یا 55 سال کی عمر میں گھر بھیج د یتے ہیں اُس کی جگہ نئی نسل کا نما ئیند ہ آتا ہے نیا جذبہ نیا ولو لہ اور نیا خون ادارے کو فعال بنا کر پید ا وار اور منافع کی شرح میں کئی گنا اضا فہ کر تا ہے گولڈن ہینڈ شیک کی مد میں پنشن پرجانے والے بزرگ کو دی گئی رقم خسارے کا سو دا ثابت نہیں ہو تی بلکہ سراسر نفع بخش کاروبار کا درجہ اختیار کرلیتی ہے برطانیہ کے وزیر اعظم چرچل نے ایک دن ملکہ معظمہ کی بارگاہ میں یہ کہہ کر اپنا استعفیٰ پیش کیا کہ میں نئے خیالات،نئی تجا ویز اور نئے منصو بوں کے ذریعے سے اپنے منصب کا حق ادا کر نے کے قابل نہیں رہا مجھے فارغ کر دیا جائے ہمارے جن بزرگوں نے گذشتہ نصف صدی سے نئے خیالات کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے ان کو گھر بھیجنے کی جگہ مزید 3 سال قوم کے کندھوں پرسوار کر نے کی تیاری ہو رہی ہے یہ ہلکا پھلکا موضو ع نہیں بلکہ بے حد سنجید ہ موضو ع ہے اس کا تعلق ملک اور قوم کے مستقبل سے ہے پاک فوج کا جواں اگر آگے ترقی نہ کر ے تو 33 سال کی عمر میں ریٹا ئر منٹ لے لیتا ہے جو نیئر کمیشنڈ افیسر اپنی مد ت ملازمت کی آخر ی حد کو چھو نے کے بعد ریٹا ئر منٹ لے لے تو اس کی عمر بمشکل 45 سال ہو تی ہے ریٹا ئر منٹ کے اس نظام سے ایک طرف معاشرے میں تجر بہ کار لوگ آکر معاشرتی اصلا ح کا ذریعہ بنتے ہیں دوسری طرف دوسرے نو جوانوں کو بھی روزگار کے مواقع ملتے ہیں فوج کے اندر تھکے ما ند ے، کھا نسنے چھینکنے والے بوڑھوں کی جگہ نئی نسل، نوجوان قیادت آجاتی ہے نیا خون شامل ہو جاتا ہے یہی سسٹم دوسری سرکاری نوکریوں میں بھی رائج ہو نا چاہیے سکول،کالج، ہسپتال اور دفاتر میں بھی اس قانون کا اطلاق ہو نا چاہیے تاکہ جدید دور کے تقاضو ں کے مطابق سسٹم کو چلا نے اور لوگوں کی خدمت کر نے میں آسانی ہو حکومت میں آنے سے پہلے حکمرانوں نے اعلان کیا تھا کہ نوجوانوں کو ایک کروڑ نوکر یا ں دینگے مگر حکومت میں آنے کے بعد حکمران اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ ریٹا ئر منٹ کی عمر میں 3 سال کا اضا فہ کر کے بوڑ ھوں اور بزر گوں کو مزید 3 سال نو کر ی کا موقع کیوں نہ دیں؟ نئی نسل باہر بیٹھی ہے سو بیٹھی رہے اور ڈگریاں لیکر نو کر یاں ڈھونڈ نے والے ڈھو نڈ تے رہیں کسی نے سچ کہا ہے شیر جنگل کا بادشاہ ہے چاہے انڈ ہ دے چاہے بچہ دے

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔