داد بیداد…ایکیسٹر نل پبلیسٹی اور ریڈیو پا کستان

سابق وزیر اطلا عات نے غیر ملکی نشر یاتی ادارے کو دیئے گئے انٹرویومیں وزارت اطلا عات کی کئی خا میوں کا اعتراف کیا ہے انہوں نے بر ملا کہا ہے کہ ہمارا ایکسٹر نل پبلیسٹی ونگ کمزور ہو گیا ہے بین لاقوا می میڈیا کے نما ئندوں کو ویزے جاری کرانے میں تا خیر ہو تی ہے اندرون ملک مختلف صو بوں، علا قوں اور شہروں تک عا لمی صحا فیوں کو رسائی نہیں دی جا تی اس صورت حال میں بین الا قوامی میڈیا ہماری ساکھ کو کس طرح مثبت طور پر پیش کرے گا؟ اور کیوں ایسا کرے گا؟ اگر چہ سا بق وزیر اطلا عات کے اعترافات کا تعلق وزارت اطلا عات کے مخصو ص شعبے سے ہے اس میں دیگر شعبوں کا ذکر نہیں آیا اگر ان سے مزید سوالات کئے جاتے تو اس طرح کے اعترافات دیگر شعبوں کے بارے میں بھی سامنے آتے وزارت اطلاعات کی ان کو تا ہیوں کا تعلق موجو د ہ حکومت کی کارکردگی سے ہر گز نہیں زوال کی کہانی 2013 ء سے شروع ہو تی ہے 2013 ء میں وزارت اطلاعات کے اندر تین بڑے اقدامات اُٹھا ئے گئے ایکسٹر نل پبلسٹی ونگ کے کام کو محد ود کر دیا گیا اس ونگ میں ما نیٹر نگ کا شعبہ بند کر دیا گیا ما نیٹر نگ کا شعبہ ختم ہو نے کے بعد پاکستان کے خلاف ہو نے والے منفی پر و پگینڈ ے کا جواب آنا بھی بند ہو گیا غیر ملکی صحافیوں کو پاکستان میں جو مراعات دی جاتی تھیں ان پر قد غن لگا ئی گئی اس کے نتیجے میں ہر صحافی کو ”مشکو ک افراد“ کے کھاتے میں ڈال کر خفیہ اداروں کے ذریعے اس کی نگرانی کر نے کا کام تیز کر دیا گیا ماضی میں غیر ملکی صحافی کو وزارت اطلا عات کی طرف سے پرو ٹو کول ملتا تھا ا س کے لئے ویز ہ کے اجرا ء سے لیکر پاکستان میں اُس کے قیام اور مختلف جگہوں پر ا س کے دوروں کے انتظامات تک تمام امور وزارت اطلاعات کا ایکسٹرنل پبلسٹی ونگ انجام دیتا تھا اس لئے عالمی سطح پر الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں پاکستان کی اچھی ساکھ رپورٹ کی جاتی تھی سیاحت کے حوالے سے ان رپورٹوں سے بڑی مدد ملتی تھی ایکسٹرنل پبلسٹی میں پڑوسی ممالک کے حوالے سے ریڈیو پاکستان کا بھی اہم کردار تھا 2006ء میں حکومت نے ریڈیو پاکستان کا دائرہ بھی محدود کرنا شروع کیا جب سوات کا پرائیویٹ ایف ایم ریڈیو بہت مشہور ہوا تو حکومت نے اپنا ریڈیو پاکستان بند کرکے ایم ایف چینل کھولنے شروع کردیئے پہلے مرحلے میں ریڈیو پاکستان کے اے ایم ٹرانسمیٹروں کی اپ گریڈیشن پر پابندی لگائی گئی انجینئرنگ کا آدھا شعبہ بند کر دیا گیا اس کے بعد ریڈیو پاکستان کے پروگراموں کا شعبہ 2015ء میں بند ہونا شروع ہوا ریڈیو پاکستان کی جو آواز سری نگر، جموں، امرتسر اور جالندھرتک سنی جاتی تھی وہ آواز خاموش ہوگئی ریڈیو پاکستان کے جو پروگرام جلال آباد، ننگر ہار،بدخشان،پامیر، نورستان،کابل اور زاہدان تک سُنے جاتے تھے وہ پروگرام بند کر دیئے گئے بیرون ملک خاص کر پڑوسی ممالک میں ریڈیو پاکستان ہمارا بہت اہم دفاعی مورچے کا کام دیتا تھا اس کی آواز خاموش کردی گئی ظاہر ہے غیر ملکی نشریاتی ادارے کی اس واقعے میں دلچسپی نہیں تھی اس لئے سابق وزیر اطلاعات سے اس موضوع پر کوئی سوال نہیں پوچھا گیا اگر سوال پوچھا جاتا تو اُن کا جواب یقینا پہلے جواب کی طرح ہوتا وہ ضرور اعتراف کرتے کہ ریڈیو پاکستان کی آ واز کو خاموش کرکے اس کی جگہ ایف ایم کی چھوٹی چھوٹی نرسریاں اُگا کر وزارت اطلاعات نے سنگین غلطی کی تازہ ترین خبر یہ ہے کہ وزارت اطلاعات نے لورالائی اور ایبٹ آباد کے ریڈیو سٹیشن بند کرنے کا حکم جاری کیاہے اگلے مرحلے میں تربت،ڈی آئی خان، چترال اور دیگر سٹیشنوں کو بھی بند کردیا جائے گا اگلے دو سالوں میں پاکستان کے 12ریڈیو سٹیشن بند کردیئے جائینگے اور ریڈیو پاکستان کی آواز چھوٹے اے ایم ٹرانسمیٹروں کے ذریعے 200 کلومیٹر کے محدود علاقے میں سنائی دیتی ہے مقامی کلچر کو فروغ دیتی ہے مقامی زبانوں میں نشریات پیش کرتی ہے وہ آواز بھی خاموش کردی جائیگی تازہ خبر یہ بھی ہے کہ ان حالات سے مجبور ہوکر خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے صوبے میں شامل ہونے والے نئے قبائلی اضلاع کے لئے 25کلومیٹر رینج کے 8ایف ایم ریڈیو سٹیشن کھولنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ افغانستان، بھارت،امریکہ، برطانیہ اور دیگر بیرونی ممالک کے منفی پروپیگینڈے کا جواب دیا جاسکے اسلام آباد کی ایک اعلیٰ سطح کی میٹنگ میں جب غیر ملکی پروپیگینڈے کا ذکر کیا گیا تو ایک اعلیٰ عہدیدار نے سوال کیا کہ لوگ سوشل میڈیا اور ٹیلی وژن پر ہمارا موقف کیوں نہیں سنتے؟ جب اعلیٰ عہدیدار کو بتایا گیاکہ دیہی اور سرحدی علاقوں کی 80فیصد آبادی چاہے ڈیو رنڈ لائن کے اطراف میں رہتی ہو یا لائن آف کنڑول،سیز فائر لائن یا پاک بھار ت باونڈری کے دونوں طرف رہتی ہو اُس کی رسائی سے فیس بک اور ٹوئیٹرا بھی بہت دور ہے ٹیلی وژن بھی بہت دور ہے نیز ٹیلی وژن اور سوشل میڈیا اُس طریقے سے کام کر ہی نہیں سکتا جس طریقے سے 1948،1965اور دیگر جنگوں میں ریڈیو پاکستان نے وطن عزیز کی آواز بن کر پاک فوج کے شانہ بشانہ اپنا کردار ادا کیا تھا خدا نخواستہ ایسی صورت حال پیدا ہوئی تو پاکستانی میڈیا کا دفاعی مورچہ خالی ہوچکا ہے سابق وزیر اطلاعات کے اعترافات کے بعد سید خور شیدشاہ، بلاول بھٹو، احسن اقبال، مولانا عبدالاکبر چترالی اور دیگر اراکین کو یہ مسئلہ قومی اسمبلی میں اٹھا نا چاہئیے، مشاہد اللہ خان، مشتاق احمد خان اور دیگر سینٹروں کو ایوان بالا میں یہ مسئلہ اٹھا نا چاہیئے آرمی چیف کو اس کا نوٹس لینا چاہئیے ڈی جی آئی ایس پی آر کو وزارت اطلاعات سے اس پر جامع بریفنگ لینی چاہیئے تاکہ ریڈیو پاکستان کی آواز خاموش نہ ہو جو ہمارے دشمنوں پر بجلی اور بم بن کر گرتی تھی

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔