دھڑکنوں کی زبان”………..عید کا پیام اہلیاں پاک سر زمین کے نام“

میرا نام خوشی ہے۔میرا نام مسرت ہے۔میں آتی ہوں۔ہر سال آتی ہوں۔ہر گھر میں آتی ہو ں۔کٹیا،جھونپڑی میں بھی آتی ہوں۔،محلوں حویلی میں بھی آتی ہوں۔ایوانوں اور آستانوں میں آتی ہوں۔بوڑھوں کی بوڑھی آرزوؤں میں آتی ہوں۔جوانوں کی جوانی میری آرزو کرتی ہے۔حسینوں کی آنکھوں میں،نازینیوں کی قد کاٹھ میں،خوش الحانوں کی سریلی آوازوں میں،پہلوانوں کی للکار میں،بے کسوں کی آہوں میں،غریبوں کی غربتکدوں میں آتی ہوں۔یہ مسلمانوں کی سر زمین ہے۔یہ جذبہ ایثار اور قر بانی والوں کی یاد گار ہے۔۔یہاں پرخوشیاں بانٹی جاتی تھیں۔مسرتیں پھیلتی تھیں۔دولت مندوں کی دولت میں سب کا حصہ ہوتا تھا۔غریب اپنی غربت بھول جاتے تھے۔تب میں آتی تھی تو مزہ آتا تھا۔اب بھی سر زمین وہی ہے۔۔دولت کی اور زیادہ ریل پیل ہے۔اکثروں کی تجوریاں بھری ہوئی ہیں۔عیاشیاں اور سہولیات بھی زیادہ ہیں۔مگر امیر غریب میں تفرقہ وہی کی وہی ہے۔ساتھ والا ساتھ والے کانہیں سوچتا۔ہمسایہ ہمسائے کی خبر نہیں لیتا۔دوست دوست سے بے خبر رہتا ہے۔حکمران عوام سے غافل ہیں۔بھائی بھائی کانہیں پوچھتا۔۔تب آنے میں مزہ نہیں آتا۔ہر چہر ہ شادمان نہ ہو تو مزہ ہی کیا؟۔میں بارش بن کے برسوں،میں پھوار بن کے گروں،خوشبو بن کے پھیلوں،ہوا بن کے چلوں تب مزہ ہے۔میرے آنے کی خوشی میں سب جھوم اٹھیں تب مزہ ہے۔دیکھو غریبوں کی جھونپڑیوں میں وہی افسردگی ہے۔بچوں کی آنکھوں میں کوئی چمک،ہونٹوں پہ تبسم اور چہرے پر مسکراہٹ نہیں۔وہی للچائی ہوئی آنکھیں ہیں۔دوسرے بچوں کے کپڑوں جوتوں کو دیکھ کر آہ بھرتے ہیں۔ان کے ابو عید سے پہلے دن بھی مزدوری پہ جائے گا اور تھکا ہارا آئے گا ان کو آج کی دہاڑی نہیں ملے گی۔جس کے ہاں کام کررہا ہو گا اس کو عید کی تیاریوں سے فرصت نہیں ملے گی اس کی دہاڑی کون دے گا۔ماں وہی اتش دان کے پاس بے چارگی کی صورت بنی بیٹھی ہوگی۔بڑی بہن کی بیماری میں مزید اضافہ ہوگا۔دوائیاں ختم ہوچکی ہونگی۔ابو گھر میں داخل ہو کر اپنے کندھوں سے پرانی چادر ایک طرف پھینک دے گا۔اس سے پتہ چلے گا کہ آج بھی اس کی جیب خالی ہے۔اب اگر میں آؤں بھی تو اس گھر میں کیسے داخل ہو جاؤں گی۔اس بچے کی افسردہ آنکھوں میں کیسے اتروں گی۔اس چہرے پہ شادمانی کیسے لاؤں گی۔اگر ایسا نہیں کر سکا تو میرے آنے کا مزہ کیا ہے۔اصل میں بڑوں کی عید چھوٹوں کی خوشیوں سے سجتی ہے۔امیروں کی عید غریبوں کی خوشیوں کی وجہ سے خوبصورت ہوتی ہے۔۔اگر امیروں کے گھروں میں ہفت خوان پکے تو کم از کم غریبوں کا چولہا بھی ٹھنڈا نہ ہو۔اگر امیر دس دس جوڑے کپڑے بنا ڈالے تو غریب بھی ایک واجیبی ساجوڑا بنا سکے۔اگر امیروں کے بچے اپنی شاپنگ خود کریں تو غریبوں کے اپنے ابو کے ہاتھ میں اپنے لیے شاپنگ بیگ دیکھ سکیں۔تب میرے آنے کا مزہ ہے۔پاک سر زمین ایک فلاحی مملکت ہے۔فلاحی مملکت میں غریبوں کی خبر گیری ہوتی ہے۔غریبوں کو خوشیوں میں شامل کیا جاتا ہے۔زندہ قومیں اپنے عمل،کردار اور اخلاق سے زندہ رہتی ہیں۔ایک فرد محروم دوسرا معمور نہیں ہوتا۔ایک خوشحال دوسرا بد حال نہیں ہوتا۔ایک اسودہ دوسرا افسردہ نہیں ہوتا۔ایک کی دولت میں دوسرے کاحصہ اور ایک کی خوشی میں دوسرے کا حق ہوتا ہے۔انسان انس سے عبارت ہے۔انس محبت کو کہتے ہیں۔اس لئے انسانوں کی بستی کی بنیاد محبت پر قائم ہوتی ہے۔دوسروں کے لئے زندہ رہنے کانام زندگی ہے۔اپنے لئے تو ہر کوئی جی سکتا ہے۔۔۔۔اس لئے اے پاک سر زمین کے باسیو!۔۔میرا پیغام یہ ہے۔کہ ایسا ماحول پیدا کروکہ میں ہر گھر میں اُتر سکوں۔اس پاک سر زمین کوخوشیوں سے بھر دو۔مسکراہٹو ں کی آماجگاہ بناؤ۔امن اور خوشحالی کا گہوارہ بناؤ۔اس کومحبت اور مسکراہٹوں سے سجاؤ۔ایثارو قربانی اور ہمدردی کی قندیلیں روشن کرو۔آپس کے فاصلے مٹا دو۔دوسروں کی خوشیوں کواپنی خوشی سمجھو۔پھر عید آئے گی۔۔عید سعید آئے گی اور آپ کے گھروں کو برکتوں اور خوشیوں سے بھر دے گی۔۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔