دُنیاۓ قدر…… یعنی قدر والی دُنیا

       …..بہرام علی شاہ………. کراچی……
کُچھ لوگوں کے نزدیک یہ دنیا ایک سنگین مذاق ہے اور وہ لوگ صرف اسے لالچ اور فریب کی غرض سے اپناتے ہوۓ اپنے خود غرض چہروں کو خوب چمکاتے ہیں. کُچھ ایسے ہی خود غرض چہروں کی احساس کی تپش جب ذہن کو پگھلانے لگی تو جزبے کو لفظوں میں پرو کر ساغر نے فرمایا تھا, کہ
   مجھے زہر کا ایک چَھلکا ہوا ساغر دے دو
   مجھے اس دور کے انسان پر ہنسی آتی ہے
                                         ساغر صدیقی
ہر چند کہ ادیانِ عالم اور دنیاۓ انسانیت کی تعلیمات و توجیہات نہ صرف انسانی عقل و فہم و نظر کے واسطے بیش بہا لعل و گُہر اپنے اندر سموۓ ہوۓ ہوتے ہیں بلکہ ساتھ ساتھ انسانی فطرت اور آیاتِ آفاق و اَنفُس کی مُعجِزاتی تغیر و تبدل کے سبب طالِب کی طلب,خواہش, اخلاص, عشق اور جستجو کے مطابق تشنگی فراہم کرتے رہتے  ہیں.
تاریخِ انسانی اور فطرتِ انسانی پر اگر نظر رکھی جاۓ تو معلوم ہو جاتا ہے کہ دینی کامیابی و کامرانی ہو یا دنیاوی  ہر قسم,  لوگوں کو اپنی طرف دعوت دیتی ہے. دنیاوی کامیابی پر وہ لوگ جمع ہونگے جو شان و شوکت, عزت, وقار کے حصول کے ساتھ ساتھ کچھ لینا اور نفع حاصل کرنا چاہتے ہیں. بلکل اسی طرح دینی کامیابی پر وہ لوگ لبیک کہتے ہوۓ نظر آئیں گے جو اللہ کی خوشنودی کے لیے ثواب کی غرض سے کامیاب ہونے والے فرد کے ساتھ ہمدردی اور تعلق کا اظہار کرتے ہیں. تیسری قسم کے لوگ بھی ان دو طبقوں کے بین بین پاۓ جاتے ہیں جو دنیا و آخرت دونوں کے حصول کے متمنی ہیں. ایسے لوگ نہایت ہی مخلص ہوتے ہیں. یہ لوگ دنیاوی قدر و منزلت سے خود کو بچا کر میانہ روی کی زندگی گزارتے ہیں. قرآن مجید میں اللہ تعالی ان درجہ بندیوں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ, ” کچھ تم میں وہ لوگ ہیں جو دنیا کے طلبگار ہیں اور کچھ تم میں سے آخرت کی خواہش رکھتے ہیں” (152:3). “کچھ لوگ تم میں سے ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار ہمیں دنیا میں بھی نیکی عطا فرما اور آخرت میں بھی نیکی دے اور آگ ( جہالت ) سے بچا” (201-200: 2). ان کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے خطرناک لوگ بھی ہوتے ہیں جو نہ صرف ان تینوں گروہوں کے لیے بکلہ پوری عالمِ انسانیت کے لیے خطرناک ہوتے ہیں. ان کے وجوہات کی فہرست بہت طویل ہے مگر مختصراً یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے اندر لالچ, خوشامد, حسد اور رقابت بھری ہوئی ہوتی ہے. مشہور فلسفی اور مورّخ قاضی النعمان کے مطابق یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے صرف خوف کی وجہ سے, بھیس بدلنے کے لیے اور فریب کے طور پر لوگوں کی پیروی کرتے ہیں. ہمارے معاشرے میں بھی سیاسی اور مذہبی طبقے کے ساتھ ساتھ خاندانوں میں بھی یہ اثرات نمایاں ہیں. کچھ لوگ سیاسی طبقے سے وابستگی ظاہر کرتے ہوۓ نوکری اور دنیاوی لالچ دے کر  لوگوں کے عزتِ نفس کو پامال کرتے ہیں اور کچھ لوگ مذہب کو بطور آلہ استعمال کرکے رزقِ حلال بٹورتے ہیں. یہ لوگ ایمان اور نیک نیتی کی بنا پر یا منافقت یا سستی شہرت کی خاطر نیکی دکھانے کا سطحی کوشش کرتے رہتے ہیں. اس کی سب سے بڑی وجہ بنیادی تعلیم کی کمی ہے. ترقی یافتہ ممالک میں اس قسم کے لوگ ترقی پزیر ملکوں کی نسبت نہ ہونے کے برابر ہیں. کیونکہ ان ممالک میں تعلیم و تربیت کی بنیاد اعلی اخلاقی اقدار کی معیار پر ہوتی ہے. جہاں سارے انسانوں کے ساتھ برابر انسانی ہمدردی کے تحت بغیر رنگ و نسل و دولت سلوک کی جاتی ہے. جب تک انسان اپنے نسب العین کی بنیاد علم اور سچائی پر نہیں رکھ سکتا تب تک ان کے معاملات درست نہیں ہو سکتے. علم اور سچائی کی کمی ہی ہے جو ہمارے معاشرے کو پیچھے لے کر جا رہا ہے.  ایسے لوگوں کو معاف یا نظر انداز ہر گز نہیں کرنی چاہیے جو جانے انجانے یا کسی دنیاوی لالچ کی خاطر معاشرے میں اس تفریق کو پرواں چڑھاتے ہیں. بلکہ ان کی اصلاح کی خاطر کوشش کرتے ہوۓ حوصلہ شکنی کرنی چاہیے. کیونکہ ایسے افراد پر کوئی قانونی اور شرعی حد لاگو نہیں ہوتی. بہتر تعلیم و تربیت اور اخلاقی اقدار کی پرچار سے ایسے لوگوں کو سدھارنی ہوتی ہے تاکہ معاشرے کا ہر طبقہ اپنے اعمال کو تولتے رہیں اور یہ جانتے ہوۓ محتاط رہیں کہ معاشرہ ان کی نگرانی کر رہا ہے اور تاریخ ان سے چشم پوشی نہیں کرے گا. ہرچند کہ مادیت پرستی کے اس دور میں لالچ, حسد, خودغرضی اور مکروفریب سے بچنا نہایت ہی مشکل ہے لیکن امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹ جاۓ اور انفرادی کوشش سے ایک دن ہمارے خاندانی, سیاسی اور مذہبی معاشرہ اجتماعی طور پر اس قبیح سوچ سے نجات پاۓ گا.
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔