داد بیداد………باڑہ مار کیٹ پر چھا پہ

پشاور کی باڑہ مار کیٹوں پر چھا پہ مارنے کی خبریں تصویروں کے ساتھ اخبارات کی زینت بنی ہیں امید ہے پشاور کے بعد نو شہرہ، مینگورہ،راولپنڈی اور دیگر شہروں میں اہم باڑہ ما رکیٹوں پر بھی کامیاب چھا پے ما رے جائینگے اخبارات میں خبریں شا ئع کی جائینگی تصویریں نکا لی جائینگی ملک سے باہر رہنے والے پارٹی کا رکن خو شی سے پھو لے نہیں سما ئینگے کہ حکومت نے ان شہروں کو فتح کیا سمگلنگ والا مال پکڑ لیا، غیر ملکی کپڑا برآمد کیا خزانے کو بڑا فائدہ ہوا حکومت کی نیک نا می ہوئی انتظا میہ کے زندہ اور فعال ہونے کا ثبوت ملا ”ہماری حکومت زندہ باد“ پُر جوش کار کن یہ بھی کہینگے کہ 70سالوں میں پہلی بار ایسا ہوا ہے مگرپشاور، مینگورہ، نو شہرہ اور راولپنڈی کے رہنے والے شہری جانتے ہیں کہ ہر سال دو بار، تین بار بلکہ چار، پانچ بار ایسا ہوتا ہے بازاروں پر انتظا میہ کے ”ڈرون حملے“ ہوتے رہتے ہیں حکومت کو اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دینا پڑے تو سب سے کار گر نسخہ قریبی بازار پر حملہ وا لا نسخہ ہوتا ہے اس میں ”ہینگ لگے نہ پھٹکڑی رنگ بھی چوکھا آئے“ والا مقو لہ صادق آتا ہے اور رنگ چو کھا ہی آتاہے مو جو دہ حکومت ملک کا خزانہ بھر نا چاہتی ہے اس لئے اس کا پہلا ہدف کاروباری طبقہ ہے کاروباری طبقے پر پے درپے حملے ہورہے ہیں اس لئے لو گ اپنا سر مایہ ملک سے باہر لیجا رہے ہیں کاروبار ملک سے باہر منتقل کررہے ہیں ملک کے اندر کاروبار کا ما حول خراب کردیا گیا ہے اور کاروباری ماحول مزید خراب ہورہا ہے 30لاکھ،20لاکھ یا 15لاکھ کی آبادی والے شہر میں باڑہ ما رکیٹ کہاں سے آیا؟ اس پر حکومت نے کبھی غور نہیں کیا، باڑہ مارکیٹ میں طورخم، غلام خان، بن شاہی جیسے کئی راستوں کے علاوہ چمن کی سر حداور کراچی کی بندر گاہ سے بھی سمگل شدہ مال آتا ہے اس مال میں کپڑا سب سے زیادہ مشہور ہے سونا، اسلحہ، منشیات اور کاسمیٹکس کا سامان بھی آتا ہے اس سامان کو روکنے کے لئے فیڈرل بورڈ آف ریو نیو (ایف بی آر)کا عملہ سرحدی چوکی پر ڈیو ٹی دیتا ہے باہر سے آنے والے سامان کی کسٹم کرواتا ہے یا ان کوضبط کرتا ہے سوال یہ ہے کہ پھر باڑہ مارکیٹیں کسطرح بھر جاتی ہیں؟ سمگل ہونے والا غیر ملکی سا مان شہروں کے اندر گنجاں مار کیٹوں میں کیسے پہنچتا ہے پشاور صدر کے شہر یوں اور شفیع مارکیٹ جیسی مشہور مارکیٹوں کے قریب رہنے والوں کو سارا حال معلوم ہے ؎
پتا پتا، بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
پشاور کے شہریوں کو اس بات کا علم ہے کہ ٹرک پر بندر بندھا ہوا ہوتو اس میں حلال سمگلنگ کا مال ہوتا ہے جس لاری پر مخصوص رنگ کے کپڑے کی جھنڈیاں لگی ہوں اس کا ما لک ”اپنا بندہ“ کہلا تا ہے پشاور کے شہریوں کو یہ بھی علم ہے کہ کارخا نہ مارکیٹ،باڑہ اور جمرود سے ہر روز ہزاروں کی تعداد میں گنڈا مار سائیکل ریڑھی اور بائیک ریڑھی کے ذریعے سمگل شدہ مال دن کی روشنی میں بلا روک ٹوک شہر پہنچاتے ہیں گنڈامار کی اصطلاح ”کسٹم“ کے نام کی طرح مشہور ہے ڈبگری،رام داس اور بھانہ ماڑی میں اس قسم کا کام کرکے بچوں کے لئے روزی کما نے والوں کو ”ڈیفنسی“ کہا جا تا ہے ان میں عورتیں بھی ہوتی ہیں معذور بچے بھی ہوتے ہیں پشاور سے پنڈی جانے والی بسوں اور ویگنوں سے ان عورتوں کو سفر کی کھلی اجا زت ہوتی ہے یہ گنڈا ماروں کی طرح دن دیہاڑے سفر کر تی ہیں کبھی کبھی منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے کسی چیک پوسٹ ”ڈیفنسی“ کو مال کے ساتھ ایک ویگین سے اتار کر مال سمیت دوسری ویگن پر سفر کی اجا زت دی جاتی ہے بابائے قوم کی تصویر ایسے ”مقا مات آہ فغان“پر بہت کام دیتی ہے یہاں بھی کام آجا تی ہے طریقہ واردات یہ ہے کہ ویگن،بس یا رکشہ اور تانگے میں کسی مسا فر سے باڑہ مارکیٹ والے کپڑے کے دو جوڑے پکڑے جائیں تو 12سا لوں تک اس کو عدا لتوں میں خوار کیا جا تا ہے اگر کسی مسافر کے قبضے سے 10کروڑ کا مال بر آمد ہوجائے تو وہ ایک گھنٹہ کے اندر مال کے ساتھ چھوٹ جا تا ہے یہ ایف بی آر کا اصول اور قانون ہے اگر ایف بی آر چاہے تو سر حدی چو کیوں اور ائیر پورٹوں یا بندر گاہوں پر باڑہ مارکیٹ والے مال کو پکڑنا مشکل نہیں مگر ایف بی آر والے مال کو دھڑلے کے ساتھ اندر آنے دیتے ہیں باڑہ ما رکیٹوں تک پہنچا تے ہیں اور پھر گاہے بگاہے باڑہ مار کیٹوں پر چھا پہ مار کر اپنی کار کر دگی دکھاتے ہیں دراصل یہ کار کردگی نہیں کاروبار کے ساتھ دشمنی اور کاروباری طبقے کے خلاف بدنیتی ہو تی ہے اس وجہ سے لوگ اپنا سر مایہ باہر لیجا تے ہیں پاکستان میں کارو بار کو محفوظ نہیں سمجھتے کیا حکومت یہی چا ہتی ہے؟اگر حکومت کاروباری طبقے کا اعتماد حا صل کرنا چاہتی ہے تو پھر سمگلنگ کو سر حدپر روکے،مار کیٹوں پر چھا پہ مارنے کا سلسلہ بند کرے اور گڑھے مردے اکھاڑ نے کی جگہ آئیندہ کا لائحہ عمل درست کرے اسی میں سب کی بھلائی ہے

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔