عوام مستوج، لاسپوراوریارخون کااحتجاجی دھرنا پھرشروع، یکم جولائی سے روڈ بند کرنے کا اعلان

چترال( محکم الدین ) اپر چترال کے عوام نےایک مرتبہ پھربونی شندور روڈ اور بروغل روڈ کی تعمیر کے سلسلے میں احتجاج کا راستہ اختیار کیا ہے.اور احتجاج میں بتدریج شدت پیدا ہونے کے خدشات نظر آ رہے ہیں.ذرائع کے مطابق بونی شندور روڈ اور مستوج بروغل روڈ کی تعمیر و پختگی کے لئے دھرنے سے شروع کیا جانے والا احتجاج چاردن کے وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوا ہے ۔ اتوار کےروز مستوج , لاسپور , یارخون , بروغل کے عوام کا بہت بڑا ہجوم مستوج پل میں جمع ہوکر پھر سے غیر معینہ مدت کیلئےاحتجاجی دھرنا شروع کیا ہے تاہم روڈ کی بندش کے بارے میں اطلاعات نہیں ہیں اس سے چند دن قبل اسی مقام پر دھرنا دے کر روڈ بلاگ کیا تھا 25 جون کو اے ڈی سی اپر چترال نے دوسرے انتظامی عہدیداران کے ہمراہ مظاہرین سے مذاکرات کرکے 30 جون تک کا وقت طلب کیا تھا تاکہ ایم این اے، ایم پی ایز ، سیکرٹری این ایچ اے اور دوسرے اعلی عہدیداروں سے ملاقات کرکے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی جائےگی۔ اس کے بعد مظاہرین نے 30 جون تک کے لئے اپنا دھرنا ملتوی کیا تھا۔ اب تیس جون کو پھر سے عوام دھرنے میں بیٹھ گئے ہیں۔ تاہم اطلاعات کے مطابق کوئی بھی اعلی سرکاری آفیسر یا منتخب نمائندے نے ان سے مذاکرات نہیں کی۔ ذرائع کے مطابق اگر آج احتجاجی مظاہرین سے کوئی اعلی سرکاری آفیسر و منتخب قیادت مذاکرات نہیں کرتی تو شام تک مظاہرے کے قائدین اگلے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔ جس میں روڈ بلاگ سمیت مختلف آپشنز پر غور کئے جانے کا امکان ہے۔دریں اثنا مظاہرین سے اظہار یک جہتی کے لئے تحریک حقوقِ عوام اپر چترال نے بھی یکم جولائی سے گرین لشٹ سے لیکر سورلاسپور تک مین روڈ کو غیر معینہ مدت کے لئے بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ایک طرف شندور فیسٹول کےانتظامات آخری مراحل میں داخل ہوئے ہیں .دوسری طرف مظاہرین نے ہر حال میں بونی شندور روڈ اور مستوج بروغل روڈ کی تعمیرکے حوالے سے اپنی تمام کشتیاں جلانے کا فیصلہ کیا ہے.جبکہ دونوں روڈ ز کی تعمیر کے حوالے سے سابقہ حکومتوں نے بھی وعدہ کیا تھا .لیکن تاحال یہ وعدے شر مندہ تعبیر نہیں ہوئے .جس کی وجہ سے مستوج اورملحقہ علاقوں کے لوگوں اورسیاحوں کو آمدورفت میں شدید مشکلات در پیش ہیں.

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔