نوائے سُرود…………..خوشی کا راز                        

                       …………شہزادی کوثر

دیکھا گیا ہے کہ اکثر لوگ اپنی زندگی سے خوش نہیں ہوتے سوائے ان خوش نصیبوں کے جو زندگی گزارنے کا گُرُ جانتے ہیں۔ موجودہ دور میں ہرطرف پریشانی،مایوسی، لڑائی جھگڑے،بے اعتباری،دھوکہ بازی حسد اور اس جیسے بےشمار منفی روئیے منہ کھولے انسان کو ہڑپ کرنے کو تیار ہیں۔ یہ ساری پریشانیاں خود ساختہ ہیں جو انسان کی حماقت،لا علمی اور کم ظرفی کا نتیجہ ہیں۔ بہترین ذہانت کا دعوے دار بن کر طرح طرح کے قوانین  اور رسم ورواج ایجاد کر تے ہیں اور خود ہی ان میں پھنس کر بے بسی کا رونا روتے ہیں۔ دوسروں سے منفرد نظر آنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنی غذا،لباس اور عمل میں بناوٹ اور نمائش سے کام لیتے ہیں۔ایسا کرتے ہوئے بھی اطمینان نصیب نہیں ہو پاتا کیونکہ یہ سب دکھاوا ہے،گویا خود کو ُپر آسائش زندگی کا مالک ظاہر کرنے کا ڈراما، جو کبھی اپنی مرضی سے اور کبھی دوسروں کو نیچا دکھانے کے لیے کرتے ہیں تاکہ لوگ ہم پر رشک کریں یا حسد سے جل بھُن جائیں۔ کتنی نیچ سوچ اور کتنا اوچھا ہتھیار ہے یہ جس سے ہم اپنا دفاع کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سب اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ہم اپنی زندگی سے مطمعن نہیں اور نہ ہی حقیقی خوشی ہمیں میسر ہے۔ اطمینان و قلبی سکون اعلان بن کر سب کو سنائی دیتا ہے اس کا ڈھنڈورا پیٹنے کی ضرورت نہیں ہوتی جبکہ دکھ لاکھ کوشش کے باوجود بھی چہرے سے جھانکتا ہے،پریشانیاں انسانی چہرے کا جغرافیہ بدل دیتی ہیں لیکن انسان اپنی ازلی منافقت سے کام لے کر اچھی بری کیفیتوں اور نییتوں پر غلاف چڑھا لیتا ہے۔ دانستہ یا نا دانستہ اپنے لیے مسائل خود ہی پیدا کرتے ہیں تاکہ ان پر واویلہ کر کے ہمدردیاں سمیٹ سکیں ورنہ مسائل کا کوئی نہ کوئی حل ضرور موجود ہوتا ہے آرام دہ زندگی گزارنے کے لیےاپنا آرام اور سکون غارت کرتے ہیں،دولت کماتے ہوئے صحت کی فکر نہیں ہوتی اور دولت حاصل ہونے کے بعد جب صحت ساتھ نہیںدیتی تو اسی دولت کو صحت کے دوبارہ حصول کے لیے خرچ کرتے ہیں ۔رشتے ناطوں کی پرواہ کیے بنا بہت کچھ حاصل کرنے کی دوڑ میں  شامل ہوتے ہیں جب سب کچھ حاصل ہوتا ہے تو رشتے ناطے نہیں رہتے۔  وقت کے تعاقب میں بھاگتے بھاگتے جب کہیں پل بھر کو رکنا پڑےتو اندازہ ہوتا ہے کہ بالوں میں چاندی کے تار چمکنے لگے ہیں ۔ تلاش و جستجو میں سرگرداں ہو کر یہ تک بھول جاتے ہیں کہ اس تلاش میں جنون اور وارفتگی نہ ہو تو گوہرِمراد پانے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ مقصدِ حیات کا تعین پُر خلوص محنت اللہ پر بھروسہ،اور خود پر اعتماد کامیابی کو یقینی بناتی ہے۔ ہمارا مقصد دوسروں کو نیچا دکھانا یا اپنی کامیابی کی نمود و نمائش نہ ہو بلکہ مثبت سوچ کے ساتھ حالات کا مقابلہ کر کے دوسروں کے لیے کچھ کرنا ہو تو  اس سے بڑی خوشی اور سکون کہیں اور نہیں ہے۔ یہ تصور کہ  جو کچھ میرے پاس ہے وہی سب سے اچھاہے، انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کا وہ اہل ہو ،کسی دوسرے کا رزق میرے حلق سے نہیں اتر سکتا ،مجھے وہی ملے گا جو میرے لیے لکھا گیا ہے یا جس کے لیے میں محنت کر کے پا لیتا ہوں  اوپر والے نے میری حیثیت سے بڑھ کر مجھے دیا ہے جس کا میں شکر کبھی ادا نہیں کر سکتا،، یہ تصور ہمارے مسائل میں کمی کا زریعہ بن سکتا ہے۔

دنیا میں ہمارا ایک دوسرے سے تعلق چند سالوں پر مشتمل ہے، اتنی کم مدت کے لیے بھی ہم خود کو مطمعن یا خوش کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔ لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کر کے ہی ابدی تسکین سے فیض یاب ہوا جا سکتا ہے، اس کے لیے بڑا دل گردہ چاہیئے کیونکہ کسی کے بارے میں اچھی بات سن کر ہمارے پیٹ میں مروڑ اُٹھتے ہیں کسی کی کامیابی ہم سے ہضم نہیں ہو پاتی اس لیے ہماری ہمدردیاں،محبتیں دوستیاں دکھاوے کے بادل کی طرح کھوکھلی اور بے ثمر ہیں ۔ ہم چڑھتے سورج کے پجاری بن گئے ہیں ،کوئی بڑے عہدے تک پہنچ جائے تو ان کے ساتھ رشتہ داری کا ایسا شجرہ نسب دریافت کرتے ہین جس سے ہمارے فرشتے بھی بے خبر ہوتے ہیں  اپنوں میں سے کوئی غریب ہو تو اجنبیت برتی جاتی ہے۔ طوطا چشمی کی عجیب مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا بدلاو زندگی کا حصہ ہیں ۔حالات کچھ بھی ہوں اپنی سوچ مثبت رکھ کر دوسروں کی مدد کرنے کی کوشش ہمیں زندگی کے گزرتے لمحات سے اپنے حصے کی خوشیاں حاصل کرنے میں مدد دے گی۔ا

۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔