میں جشن آزادی نہیں مناؤں گا

……..تحریر:خالد محمود ساحر……
لوٹے ہوئے قافلے کی ایک عورت پکارتی ہے کہ اے میرے بھائی میری مدد کو آ میری حفاظت کر.اے اللہ میری پکار کو میرے بھائی تک پہنچا. یہ عورت حجاج بن یوسف کے رعایا میں سے تھی جسے قافلے سمیت سندھ کے راجہ نے قید کیا تھا اوران کے سامان واسباب لوٹے تھے.جب اس عورت کی پکار حجاج بن یوسف تک پہنچتی ہے تو وہ ان کی مدد کو لشکر بھیجتا ہے اورانھیں نہ صرف راجہ کی قید سے رہا کرواتا ہے بلکہ پوراعلاقہ فتح بھی کرلیتا ہے.دل سے نکلی آواز جب کسے اپنے تک پہنچتی ہے تو وہ ہر صورت میں مدد کو آتا ہے اور حالات جیسے بھی ہو ڈٹ کر ان کا سامنا کرتا ہے. زندہ رہنا ہو تو حالات سے ڈرنا کیسا جنگ لازم ہو تو لشکر نہیں دیکھے جاتے اگست کا مہینہ آزادی اور خوشیوں کا مہینہ ہے.ہر طرف جشن آزادی کی تیاریاں عروج پر ہیں.بازاروں شاہراہوں میں پرچموں کے اسٹالز لگے ہیں. ہر سال آزادی کی خوشیاں اسی طرح ملی جوش وجزبے سے منایا جاتا ہے.چترال گولدود چوک میں پچھلے سال ایک آدمی نے پرچموں بیجز کا اسٹال لگوایا تھا شاید اس سال بھی لگایا ہوجس میں صبح سے شام تک بچوں اور بڑوں کا تانتا رہتااس کے اردگرد بھی اسٹالز لگے تھے لیکن سب لوگ صرف اس اسٹال پر جاتے. بڑے اسپیکر میں ملی نعمے لگا کر وہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کررہا تھا اور کامیاب بھی ہورہا تھا. سب لوگ اس کے اسٹال پر جارہے تھے. کچھ دیر کھڑے رہنے کے بعد میں اس کے پاس گیا اور کہا کہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا یہ اچھا طریقہ ہے. اس نے سنجیدہ لہجے میں کہا کہ “لوگ دیکھ کر بھی صرف نظر کرتے ہیں اسلیے چیخ چیخ کر اپنی موجودگی کا احساس دلانا پڑتا ہے” اس کی بات سولہ آنے درست تھی. لیکن ہمارے کشمیری بھائی چیخ چیخ کراپنےاوپر کئے گئے مظالم کا بیاں کر رہے ہیں. کیوں ان کا پکار ہمارے کانون تک نہیں پہنچتی ہم کیوں ان کو دیکھ کر بھی صرف نظر کرتے ہیں ہم ہرسال چودہ اگست کو آزادی کا جشن مناتے ہیں اور اسی دن پاکستان سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے ہمارے بھائی اسکے پرچم میں لپٹ کر جان دیتے ہیں .ہم واہگہ بارڈر میں اچھل اچھل کر پاکستان زندہ باد کے نعرے دیتے ہیں لیکن ہمارے بھائیوں کے زبان سے نکلنے والا لفظ پاکستان ان کا آخری لفظ بنا دیا جاتا ہے. ان کا حق ادا ہوجاتا ہے لیکن ہم حق کے بارے میں جوابدہ ہونگے. ہم کشمیر کی ہر ماں اور ہر بہن کے قرض دار ہیں.ہم جوابدہ ہیں. ہم سے سوال ہوگا کہ اس خوشی میں اپنے بھائیوں کوشامل کیوں نہیں کیا؟ ہم سے سوال کیا جائے گا کہ جب تمھارے بھائی آزاد نہیں تھے تو تم نے جشن کیوں منائی میں ان سوالوں کا جواب نہیں دے پاؤنگا. میں اس دن اپنے بھائیوں کا سامنا نہیں کر پاؤنگا.اس لئے میں آزادی کا جشن نہیں مناؤنگا اورمیرا دلیل یہ ہوگا,”آزادی ہو تو سب کی ہو” ہم تب تک جشن نہیں منائیں گے جب تک ان کے آزادی کی گونج ہمارے کانوں تک نہیں پہنچے گی. ہماری خوشیاں آزاد نہیں ہیں جب تک کشمیر آزاد نہیں ہے. #بائیکاٹ جشن آزادی
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔