قربانی کے مسائل(4)

…………کالم نگار:(مفتی) محمد غیاث الدین

قربانی قرآن وحدیث کی نظر میں

دین ِ اسلام نام ہے احکامِ خداوندی کا،اللہ تعالیٰ کا ہرحکم ہر وقت  اس کے بندوں کے لئے اہم اور واجب العمل ہے،انسان پر لازم ہے کہ وہ عبد(یعنی بندہ اور غلام) ہونے کے ناطے اپنے آقا کے کسی حکم کو کم اہمیت  نہ دے اور بلا چوں وچرا اپنی بساط  کے مطابق ہر حکم کو بجا لانے کی جہدِ صادق کرے۔کیونکہ ہر حکم اپنی جگہ اپنی اہمیت رکھتا  ہے،لیکن نصوص سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دینِ اسلام کے ان احکام کو ایک دوسرے پر تفوق بالزمان حاصل ہے،یعنی وقت اور زمانے کے اعتبار سے ایک حکم کی فضیلت دوسرے سے بڑھ جاتی ہے،لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ دوسرے کی فضیلت میں کمی آتی ہے یا وہ غیر اہم رہتا ہے،ہرگز ہرگز نہیں۔

ایام ِ نحر یعنی قربانی کے ایام میں اللہ تعالیٰ کو سب سے پسندیدہ عمل اللہ کی خوشنودی کے لئے قربانی کرنا  ہے۔چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے:”قربانی کے دن آدمی کا کوئی عمل اﷲ تعالیٰ کے نزدیک خون بہانے سے زیادہ پسندیدہ نہیں”۔یعنی ان ایام میں اللہ رب العزت قربانی پر جو ثواب مرحمت فرماتا ہے وہ کسی بھی دوسری نیکی پر مرحمت نہیں فرماتا ۔چنانچہ ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ قربانی کے جانور کے خون کا قطرہ  زمین پر گرتے ہی قربانی کرنے والے کے سارے گناہ (صغیرہ)معاف ہو جاتے ہیں۔

درحقیقت یہ خلیل  اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس عظیم  الشان قربانی کی یاد ہے جب آپ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے قربانی کا حکم پاکر اپنی جان سے  عزیز لختِ جگر اکلوتے صاحبزادےحضرت اسماعیل علیہ السلام کے پھول کی پتی سے نازک ، ریشم سے نرم گلےپر اپنے رب کے حکم کی تعمیل میں چھری رکھ دی تھی ، اور یہ ثابت کیا کہ ابراہیم کا دل اپنے رب کے سوا کسی کا مسکن نہیں۔ اس میں بیٹے کی محبت بلاشبہ ہے لیکن رب کی محبت کے مقابلے میں وہ ہیچ ہے۔بیٹے کی قربانی کا وہ کیا منظر  ہوگا۔۔۔ہاتھ میں چھری سامنے اکلوتے بیٹے کا منور چہرہ اور ننھا سا باریک گلہ۔۔۔ بیٹا کہہ رہا کہ ابو جان میرا چہرہ ایک طرف کرکے ڈھانپ دیں کہیں آپ کی شفقتِ پدری حکم ِ خداوندی کے آڑے نہ آئے۔۔۔اس کائنات میں قربانی کا یہ منظر دیکھ کر فرشتے بھی ورطہ حیرت میں ڈوب گئے ہوں گے۔۔۔رب کریم کو اپنے خلیل کی  یہ ادا پسند آئی ،جبرائیل امین کو جنت سے دنبہ لے جانے کا حکم ارشاد فرمایا۔ اور اسے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ ذبح کرایا۔ پھر رب کریم نے اس سنت ابراہیم کو ہمیشہ کے لئے باقی رکھا۔

قربانی ایسی عظیم الشان اور عظیم المرتبت عبادت ہے کہ آقا دوجہاںﷺ اپنی حیات طیبہ میں مسلسل قربانی کرتے رہے،مدینہ منورہ میں ایک سال بھی ایسا نہیں گزرا کہ آپﷺ نے قربانی نہ فرمائی ہو،اور صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین کو بھی اس کی عظمت و اہمیت سے آگاہ فرمایا۔ لہذا آپﷺ کی امت کے لئے قربانی کرنا سنت ابراہیمی بھی ہے اور سنت مصطفیٰﷺ بھی۔

قربانی کے بہت سارے فضائل قرآن وحدیث میں بیان ہوئے ہیں چندایک کو ذیل میں بیان کیا جاتا ہے،ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے فرماتی ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بے شک قیامت کے دن وہ جانور اپنے سینگوں بالوں اور کھروں کے ساتھ حاضر ہوگا۔ خون زمین پر گرنے سے قبل وہ رب کریم کی بارگاہ میں مقام قبول پر پہنچ جاتا ہے۔ پس تم خوش دلی کے ساتھ عمل کرو۔

ایک روایت میں آتا ہے :

“یا رسول اللہ ماھذہ الاضاحی قال سنہ ابیکم ابرھیم علیہ السلام قالوا فما لنا فیھا یا رسول اللہ قال بکل شعرۃ حسنۃ قالوا والصوف یا رسول اللہ قال بکل شعرۃ من الصوف حسنۃ”۔

اے اللہ کے رسول یہ جانوروں کی قربانی کیا ہے؟آپﷺ نے فرمایا:تمہارے باپ ابراہیم کی سنت ہے،صحابہ نے پوچھا کہ ہمارے لئے اس میں کیا فائدہ ہے اے اللہ کے رسول؟آپﷺ نے فرمایا:ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے،انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اون کا کیا حکم ہے؟آپﷺ نے فرمایا:اون کے ہربال کے بدلے میں بھی ایک نیکی ہے۔

          کتنانفع کا سودہ ہے،دنیا بھی اور آخرت بھی ، قربانی کرنے والاگوشت بھی استعمال کرتا ہے اور بے شمار ثواب بھی کماتا ہے۔ظاہر ہے کہ جانور کے بدن پر کتنے بال ہوتے ہیں اگر کوئی گنا چاہئے تو شاید یہ ممکن نہیں،ایک جانور کی قربانی پر اتنی نیکیاں ۔۔۔ اتنی نیکیاں اگر ہم سال بھر سجدے میں رہیں تو بھی کمانا مشکل ہے۔اس لئے کوئی بھی  قربانی کی اس عبادت سے پیچھے نہیں رہنا چاہئے،اپنی بساط کے مطابق کوشش کرنی چاہئے،ہاں اگر بالکل مجبور ہوتو الگ بات ہے،تاہم ایسے شخص کو بھی چاہئے کہ دل میں یہ نیت کرے کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے وسعت دے گا تو میں ضرور قربانی کروں گا، ظاہر ہے  کہ اللہ تعالیٰ علیم  بذات الصدور ہے۔لیکن معمولی معمولی بہانے پر قربانی سے رک جانا بہت بڑی محرومی ہے۔ایسے لوگوں کے بارے میں حضورﷺ کی سخت وعید آئی  ہے چنانچہ آپﷺکا ارشاد ہے کہ جو شخص قربانی استطاعت کے باوجود نہ کرے وہ ہماری عید گاہ میں  نہ آئے۔شریعت کی نظر میں قربانی کتنی اہم ہے اس حدیث سے بخوبی معلوم ہوتا ہے۔قربانی کی فضیلت کے بارے میں ایک دوسری  روایت میں آتا ہےجس کا ترجمہ یہ ہے کہ جو شخص اس طرح قربانی کرے  کہ اس کا دل خوش ہو ( یعنی زبردستی یا مجبور نہ ہو ) اور ثواب  کی نیت رکھتا ہو (ریاکاری وغیرہ نہ ہو) تو یہ قربانی اس شخص کے لئے دوزخ سے آڑ بن جائے گی۔

          قربانی کو اپنے اوپر بوجھ نہیں سمجھنا چاہئے اور بلکہ خوش دلی اور دینی جذبے سے اس عظیم عبادت کو انجام دینا چاہئے،البتہ یہ ایک ایسی عبادت ہے جس میں ریاکاری کا امکان زیادہ رہتا ہے اس لئے اس کی طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے ، بس مقصود صرف اور صرف اللہ کی رضا ہو،نہ گوشت کا خیال ہو نہ اپنے جاہ ومنصب کا اور نہ ہی لوگوں کے مدح و ذم کا۔آپﷺ کی تعلیمات بھی یہی ہیں۔مثلاًاگر کوئی انسان یہ سوچے کہ میرا پڑوسی مجھ سے کم مالدار ہوکر اتنے کا جانور لیا تو میں اس سے بڑا جانور لوں گا،یہ ریاکاری ہے،لیکن اگر دل میں یہ ہو کہ میرے پڑوسی نے اللہ کی راہ میں اتنے کا جانور قربان کیا میں اللہ کی راہ میں اس سے  بڑا جانور قربان کروں گا تو یہ درست ہے اور ممدوح ہے۔بس اصل بات یہی ہے کہ ہماری نیت میں فتور نہ ہو،مقصود صرف اور صرف اللہ کی خوشنودی ہو۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس عظیم عبادت کو اس کے حقوق کی رعایت رکھ کر انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔