داد بیداد…..سعودی عرب کی ترقی کا راز

امریکی تھنک ٹینک امریکن انٹر پرائز انسٹیٹوٹ نے سعودی عرب میں جا ری ہونے والے اس شا ہی فر مان کو سرا ہا ہے جس کے تحت نماز کے اوقات میں کاروبار کو کھلا رکھنے کی اجا زت دی گئی ہے اردن کے جریدے جورڈن ٹائمز کی رپورٹ کے مطا بق ریا ض اور دوسرے شہروں میں شا پنگ مال، سپر سٹور، ریستوران اور چھوٹی دکانیں نماز کے اوقات میں کھلی رہتی ہیں اب تک اذان ہوتے ہی لو گ اپنا کاروبار بند کرتے تھے سامان کے اوپر کپڑے ڈال کر نماز کے لئے وقفہ کرتے تھے لیکن شاہی فر مان کے بعد سعودی پو لیس یا شرطہ کی طرف سے جو پا بندی تھی وہ ختم ہو گئی خوف دور ہوا خوف دور ہونے کے بعد نہ شٹر گرتے ہیں نہ کاروبار بند ہو تا ہے نہ لو گ مسجدوں کی طرف دوڑتے ہیں بلکہ باقی دنیا کی طرح کاروبار جاری رہتا ہے لبنا نی اخبار ڈیلی سٹار کی رپورٹ میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ شاہی فرمان سے پہلے سعودی عرب کے قوا نین کے تحت اذان کے بعد نما ز مکمل ہونے سے پہلے کاروبار کی اجا زت نہیں تھی اور 5نمازوں کے اوقات میں کم از کم 3گھنٹوں کے لئے کاروبار بند ہونے سے روز انہ ڈھا ئی ارب ریا ل کا نقصان ہو تا تھا، سعودی شوریٰ کے ایک رکن نے اس پر رائے دیتے ہوئے کہا ہے ولی عہد شہزادہ محمد سلمان کے وژن 2030کے اہداف میں سے ایک ہدف یہ بھی ہے کہ اگلے 10سالوں میں سعودی معیشت کو تیل، حج اور عمرہ سے آنے والی آمدن سے آزادکر کے کھلی منڈی، آزاد سیا حت اور دیگر کاروباری سر گرمیوں کے ذریعے تر قی دی جا ئے تاکہ صرف تیل، حج اور عمرے پر انحصار نہ ہو اس وژن کے تحت 2018میں فلموں کی نمائش کے لئے سینما ہال کھول دیئے گئے 2020ء کے بعد سعودی عرب میں فلمیں بنا ئی جا ئینگی فلم انڈسٹری کو مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے کے لئے امریکہ، فرانس اور بھارت سے مدد لی گئی ہے 2018ء ہی میں عورتوں کو ڈرائیونگ کی اجا زت ملی 2019ء کے اوائل میں ایک شاہی فرمان کے ذریعے عورتوں پر سفر کے لئے محرم بھی ساتھ ہونے کی پا بندی ہٹا ئی گئی اگست 2019میں تازہ ترین شاہی فر مان آنے کے بعد ایک بر گر شاپ کے ما لک نے فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے نمائیدے کو وہ اجازت نامہ دکھا یا جس کے تحت نماز کے اوقات میں دکا نیں بند رکھنے کی پا بندی ہٹا ئی گئی ہے اجا زت نا مے کی رو سے کاروباری مراکز ریستوران، دکانیں، شاپنگ مال اور سپُر سٹو 24گھنٹے کھلے رہینگے جن میں نماز کے اوقات بھی شامل ہیں چنا نچہ سعودی عرب کے بازاروں سے وہ تختیاں ہٹا ئی گئی ہیں جن پر لکھا ہو تا تھا ”مغلق اللّصلاۃ“ (Closded for prayer) اب یہ تختی دو بارہ نظر نہیں آئے گی یورپ، امریکہ اور چین کے ما ہرین معا شیات نے سعو دی حکام کو مشورہ دیا ہے کہ تمہارے ملک میں سیا حت اور کاروبار کے وسیع موا قع اور بے شمار امکا نا ت ہیں اگر تم مذہبی پا بندیاں ہٹا کر آزاد کاروبار کا ما حول دیدو گے تو تمہارا ملک سوئٹزر لینڈ، اٹلی، سپین اور فرانس کی طرح ترقی کرے گا سنگا پور، ہا نگ کانگ اور بنکاک کی طرح عالمی کاروبار کے مرا کز میں شمار ہو گا عنقریب سعو دی عرب کی حکومت غیر ملکی خواتین کے لئے نقاب کی پا بندی بھی ختم کرنے پر غو ر کررہی ہے سعودی عرب کے بڑے شہروں، ریا ض، جدہ، طائف، مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں اہم مقا مات پر 2018میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی دیو قامت تصویر وں کے ساتھ ڈیڑھ سو فٹ اور 400فٹ کی بڑی سکر ینوں پر وژن 2030کے اشتہارات نصب کئے گئے تھے یہاں تک کہ منیٰ، مزدلفہ اور عر فات میں بھی اس طرح کے بل بورڈ دیو ہیکل سکر ینوں پر دیکھے جا سکتے تھے 2019ء میں اس اشتہاری مہم کو مزید تیز کیا گیا ہے پرنس محمد بن سلمان اور انکے امریکی دوست جیرڈ کشنر چاہتے ہیں کہ سعو دی معیشت کو کثیر الجہتی خطوط پر استوار کیا جائے انگریزی میں اس کے لئے جیرڈ کُشنر نے ”ڈائیور سیفی کیشن آف اکانو می“کی اصطلاح وضع کی ہے جیرڈ کُشنر کی وجہ شہرت کم عمری میں کھرب پتی بننے کی صلا حیت ہے وہ امریکی صدر ڈو نلڈ ٹر مپ کے دا ما د بھی ہیں و ہ چا ہتے ہیں کہ سعو دی عرب جدید دور کے تقا ضوں سے ہم آہنگ تر قی یا فتہ،”مہذب“ اور مغر بی دنیا کے لئے قا بل قبول مملکت کی حیثیت اختیار کرے ویٹی کن سٹی کی طرح مذہبی ریا ست ہونے کا لیبل اتار پھینکے 2030تک ان اہداف اور مقا صد کا حصول ممکن بنا نا شاہی خاندان کی پہلی تر جیح ہے پا کستان کے سادہ لو ح مسلمانوں کی خوش گما نی یہ ہے کہ ریاض، جدہ اور طائف میں اسلامی طرز زندگی کا اصل نمونہ دیکھنے کو ملے گا نیز ہم لو گ اتنے معصوم ہیں کہ حرمین شریفین اور سعودی شاہی خاندان کو ایک جیسا تقدس دیتے ہیں سعودی عرب میں اذان اور نماز کے اوقات کے دوران کاروباری مرا کز اور دکانوں کو کھلا رکھنے کا تازہ ترین شاہی فر مان بلاشبہ سعودی عرب کو یورپ اور امریکہ کے لئے قابل قبول بنا ئے گا اور یہ ان کی تر قی کا راز ہو گا ہمیں ایسے اقدامات پر کسی حیرت اور تعجب کا اظہار نہیں کرنا چاہئیے

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔