دھڑکنوں کی زبان…. ”اچھوڑگاہ“کی سیر

سیر سیپاٹا کرنازندہ دلی کا ثبوت ہو تا ہے۔۔قرآن نے کہا زمین میں گھوموپھیرو اور اللہ کی کائنات کو غور سے دیکھو۔۔خالق کی تخلیق اس پر ایمان کی زندہ مثال ہے۔زندگی میں یہ شوق رہا ہے کبھی کبھار ایسے مواقع آتے ہیں اور ہمسفر اچھے ہوں تو سفر یاد گار بن ہی جاتا ہے۔۔اس با ر کی اتوار کو ہم نے ”اچھوڑ گا“ کے جنگل کی سیرکا پروگرام بنایا۔تنویر احمد پروگرام لیڈر تھے۔خود محکمہ جنگلات میں ذمہ دار ہیں اور شکار اور ٹریکنگ کے از حد شوقین ہیں ان کو سارے جنگلات گھومنے کا تجربہ ہے۔ تنویر خان ایک اعلی مزاج کے انسان ہیں۔ہنس مکھ مرنجان مرنج اور شریف النفس ہیں۔کرشماتی شخصیت کے مالک ہیں۔اتنے نفیس اور مہذب کہ اس سے بات کرتے ہوئے الفاظ ڈھونڈنا پڑتا ہے تاکہ اس سے مخاطب کو اطمنان کا احساس ہو کہ وہ ایک نابغہ روزگار ہستی سے مخاطب ہے۔تنویر خان سفر بہ یک وقت ہر طرح کا کردار ادا کرتے ہیں۔لیڈر بھی وہ ہیں سامان بھی خود اُٹھاتے ہیں۔ہدایات بھی دیتے ہیں تفصیلات بھی بتاتے ہیں۔رہنمائی بھی کرتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ اتنے خوش مزاج ہیں کہ بند ہ سفر کی صعوبتیں بھول جاتا ہے۔بہادر خان ایون کے بانکا جوان ہیں ٹریکنگ اور شکار اس کامشغلہ ہے۔جنگلوں میں گھومنا پھرنا ان کی من پسند مصروفیت ہے۔وہ اپنے پیشے سے ہٹ کے انسان ہیں ان کا پیشہ پاسبانی ہے لیکن اور شہدجیسی دھن کے ساتھ عام سا شہری لگتے ہیں۔شاید کوئی ملزم ہتھے چھڑے تو وہ اس کی شرافت سے ہی اقرار جر م کربیٹھے۔بہادر خان کے چہرے پہ مسکراہٹ ہمیشہ پھیلی رہتی ہے۔ لگتا ہے یار غار ہیں۔یوسف خان جو ہمارے کالج کے سیکنڈ ائیر کے طالب علم ہیں۔تنویر خان کے چھوٹے بھائی ہیں یوسف خان ہمارے سفر کے سب سے چھوٹے ساتھی ہیں اور اتنے پیارے ساتھی ہیں کہ ان کی معیت میں سفر بہت خوشگوار لگتا ہے۔ یوسف کو بھی شکار اور ٹریکنگ سے عشق ہے۔
صبح تنویر بھائی کے گھرپر پر تکلف ناشتہ تھا۔نمکین اور شرین کڑک چائے کے ساتھ مکھن،چپاتی،دودھ،پنیر،انڈا،ملائی عرض ہر وہ نعمت جو ممکنہ طور پر کسی بڑے گھر کے دستر خوان میں موجود ہوتا ہے۔ہم فارغ ہو کر سامان اُٹھائے اور گوبائک تک تنویر بھائی کی گاڑی میں گئے۔۔وہاں پہ اُترے تو آگے واقعی میں وہ جنت نظیر وادی شروع ہوتی تھی جسے اچھوڑگا کہتے ہیں۔یوسف میرے چہیتے سٹوڈنٹ ہیں ان اس بات کا شاید اندیشہ تھا کہ میں ٹریکنگ میں کمزور ہوں۔میرا شوق اور چلت پھرت دیکھ کر اس کو اطمنان ہوا۔اچھوڑ گا ہ بہت لکی جنگل ہے۔اس میں چیل، دیودار،بلوط،شاہ بلود کے بہت قیمتی درخت ہیں۔چراگاہ ہے جگہ جگہ چرواہے ڈھیرا جمائے ہیں۔ان کی بکریاں مست مست چر رہی ہیں۔کچھ لوگوں کے سرمائی گھر ہیں۔ان میں اخروٹ،انگور،سیب وغیرہ کے درخت پھلوں سے لدے ہوئے ہیں۔جوار کی کٹائی ہو رہی ہے۔اخروٹ اُتارے جارہے ہیں۔۔شہد نکالے جارہے ہیں۔گرم پانی کا ایک چشمہ ہے۔۔لوگ کام سے تھکے ہارے وہاں آتے ہیں اور غسل کرکے تھکن دور کرتے ہیں چاہیے کہ یہاں کئی غسل خانے بنائے جائیں۔۔ایسا شعور ہمارے پاس نہیں۔۔ایک چشمہ تریاق ہے دور دور سے لوگ وہاں پر آتے ہیں۔اس گندک ملاپانی کو پیتے ہیں یہ کئی امراض کی دوا ء ہے۔وہاں پرموسمی ہوٹلیں بھی بنائی جاتی ہیں یار لوگ کماتے ہیں۔اچھوڑگاہ میں جنگلات کی بے دردی سے کٹائی ہوئی ہے اور مارکنگ کی لکڑیاں بھی وہاں ادھر ادھرپڑی ہوئی ہیں۔یہ ٹھیکہ دار لوگ قوم کے دوست ہیں کہ دشمن فیصلہ کرنا مشکل ہے۔جگہ جگہ سٹوڈنٹس ملے۔ایک جگہ بچوں نے انگور توڑ کے سامنے رکھا۔۔ان کے بابا نے شہد لاکے رکھا کہابہت معززہو میرے بچوں کے اُستاد ہوورنہ میں کسی کو نہ لاتا۔۔پہلی بار لا رہا ہوں۔۔کیونکہ اس سال کی فصل سے اُتارا نہیں تھا۔ چشمہ تریاق سے ہم نے واپس ہونا تھا۔۔وہاں پہنچے پانی پیا۔تنویر خان کھانا پکانے لگ گیا۔۔اتنی مزیدار کڑھائی پکائی۔کہ ذایقہ امر ہو گیا۔ظہرکی نماز پڑی اور واپس ہوئے۔۔راستہ بدل لیا ایک اور دنیامیں داخل ہو گیا۔صاف پانی کے چشمے، فلک بوس درخت،ندی نالے،پکڈنڈیاں،گھاس پھر چرندے،پرندے ایک عجیب سماء۔۔ہم شام کو واپس تنویرخان کے گھر پہنچے۔پرتکلف عشائیہ تھا۔ہماری کوئی تھکن نہ تھی۔۔اچھوڑگاہ کی یادیں تھیں۔یوسف نے کہا۔۔سر آپ کے ساتھ سفر کامزہ ہی کچھ اور ہے۔۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔