داد بیداد….جرگہ کی طاقت

ابوزیشن اور حکومت کے درمیان31اکتوبر کے آزادی مارچ یا احتجاج پر مفاہمت ہوگئی ہے۔مفاہمت کے تحت اسلام آباد میں داخلے کے راستوں پر اتفاق ہوا۔اسلام آباد کے اندر ڈی چوک جانے سے جلوس کو روکنے پر اتفاق ہوا۔حکومت نے حزب اختلاف کی طرف سے احتجاج کے حق کو تسلیم کیا۔حزب اختلاف کی رہبر کمیٹی نے وزیراعظم کے استعفیٰ اسمبلیوں کی تحلیل اور حکومت کو گھر بھیجنے کے مطالبوں پر تھوڑی سی نرمی دکھائی۔گویا برف پگھل گئی اور معاملات کو طے کرنے میں آسانی پیدا ہوئی۔جرگہ پاکستانی معاشرے کا طاقتور،مستحکم اور قدیم روایتی ادارہ ہے۔جرگہ کے قواعد وضوابط کی کوئی کتاب نہیں۔برطانوی آئین کی طرح اس کے تمام اصول زبانی اور سینہ بہ سینہ چلے آرہے ہیں۔پنجاب اور سندھ میں اس کو پنجایت جبکہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں جرگہ کہا جاتا ہے۔جب بھی کوئی بڑا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔فوراًجرگہ بلایا جاتا ہے۔افغانستان میں آئین سازی کے لئے بھی”لویہ“جرگہ یعنی”گرانڈ اسمبلی“کا فورم استعمال ہوتا آیا ہے۔جرگہ کی طاقت سے قبائلی اور آزاد معاشرے کے بے شمار جھگڑے حل ہوتے ہیں۔تنازعات کو حل کی طرف لے جایا جاتا ہے۔جدید علوم کی اصطلاح میں اس کو ”تنازعے اور امن کے نظم ونسق“ کا نام دیا گیا ہے پشاور یونیورسٹی میں باقاعدہ ایک ڈیپارٹمنٹ ہے جہاں اس موضوع پر ایم اے،ایم فل اور پی ایچ ڈی کرایا جاتا ہے۔سول سروس کے پختون افیسر حسن محمودیوسفزئی نے فل برائٹ سکالرکی حیثیت سے جرگہ کی تاریخ،اس کی افادیت اور اس کے طریقہ کار پر بہت جامع تحقیقی مقالہ تحریر کیا ہے۔چنانچہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تعلقات کے تعطل کو دور کرنے کے لئے حکومت نے پہل کرکے ملکی روایات کے مطابق جرگہ تشکیل دیا۔حزب اختلاف کے پلیٹ فارم کو رہبر کمیٹی کا نام دیا گیا ہے۔مولانا فضل الرحمن نے دانش اور حکمت کے ذریعے رہبر کمیٹی میں تمام فیصلے کرنے کااختیار اپنے اتحادیوں کودیدیا ہے چنانچہ احتجاج میں شامل تمام جماعتوں کے رہنماؤں پر مشتمل رہبر کمیٹی فیصلے کرتی ہے۔جرگہ کے لئے حکومت نے وزیردفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی تو اپوزیشن نے اکرام خان درانی کی سربراہی میں اپنی کمیٹی بنائی حسن اتفاق یہ ہے کہ2013سے2018تک خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت میں پرویز خٹک قائدایوان اور اکرام خان درانی قائد حزب اختلاف تھے چنانچہ ڈیڑھ سال بعد دونوں کا ایک بار پھر ٹاکرا ہوا۔مگر خوب ہوا۔بقول غالب#
تھی خبر گرم کہ حضرت غالب کے اُڑئینگے پُرزے
دیکھنے ہم بھی گئے،پر تماشا نہ ہوا
تنازعے کے حدود اور قیود میں کوئی ابہام نہیں تھا حزب اختلاف کا موقف تھا کہ حکومت عوام کو ریلیف دینے میں ناکام ہوگئی ہے نیز انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کرنے والی پارلیمانی کمیٹی نے اپنا کام درست طریقے سے بروقت انجام نہیں دیا اس لئے حکومت کو مستعفی ہوکر نئے انتخابات کرانے چاہئیں دوسری طرف حکومت کا موقف تھا کہ72سالوں سے جو قومی مسائل حل نہیں ہوئے ہم ان مسائل کو حل کررہے ہیں۔ہمیں وقت درکار ہے۔نیز جمہوری انداز میں عوام نے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ووٹوں سے ہمیں منتخب کیا ہے اس لئے اپنی آئینی مدت پوری کرنا ہماراحق ہے۔حکومت یہ بھی کہتی تھی کہ دھرنا دینے سے ملکی ترقی رُک جائیگی۔حزب اختلاف کا دعویٰ تھا کہ نئے انتخابات کے ایک سال بعد2014میں 126دن تک دھرنا موجودہ حکمران جماعت نے دیا تھا۔نیز مولانا فضل الرحمن کی طرف سے آزادی مارچ کے اعلان کے بعد حکومت سے بدحواسی میں کچھ غلطیاں سرزدہوئیں مثلاً ایک عالم کی شہریت منسوخ کرنا،بعض کے خلاف مقدمے قائم کرنا،بعض کو گرفتارکروانا،پیمرا کے ذریعے ذرائع ابلاغ سے اپوزیشن کو بلیک آوٹ کرنا،جان نثاران اسلام کو غیرقانونی تنظیم قراردینا ایسی باتوں کا فائدہ اپوزیشن،مولانا اورہبر کمیٹی کو ہوا۔ابھی31تاریخ نہیں آئی تاہم یہ بات طے ہے کہ انگریزی ترکیب کی روسے گڈ سینس”Good Sense“ موجود ہے۔دونوں فریق افہام وتفہیم اور جرگہ کے فیصلوں کی مدد سے آگے بڑھ رہے ہیں۔اُمید کی جاسکتی ہے کہ حالات تصادم کی طرف جانے کی جگہ صلح صفائی کے راستے پرگامزن ہونگے اورقوم کو ایک بار پھراندرونی خلفشار سے نجات پاکر کشمیر،افغانستان سمیت اہم بین لاقوامی مسائل پر توجہ دینے کا وقت ملے گا۔بیرونی دنیا کو بھی ہماری طرف سے ایک متحد اورمتفق ملک وقوم کا پیغام جائے گا۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔