دادبیداد ……تاریخ کا ایک ورق

…………ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی……

جمعرات کے دن سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا ابرومندانہ اور مصالحانہ فیصلہ دے کر قوم کو بڑے بحران سے بچالیا۔کچھ لوگ کہتے ہیں یہ سیاستدانوں کی نالائقی تھی۔کچھ لوگ کہتے ہیں بیوروکریسی کا قصور تھا۔بیوروکریسی کہتی ہے1958سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ مقدمہ عدالت میں گیا اور عدالت نے غلطیوں کی نشان دہی کی۔1958کا زکر آتے ہی کسی شاعر کا مصرعہ یاد آتا ہے۔”اک تیرمیرے سینے میں ماراکہ ہائے“قدرت اللہ شہاب نے اپنی سوانح عمری میں مئی1958کا ایک ”چھوٹا سا“واقعہ لکھا ہے۔ان کی تحریر کا خلاصہ یہ ہے کہ صدر سکندر مرزابہت وضعدارآدمی تھے۔دفتر سے نکل کر گھر جاتے وقت برآمدے میں ضرور رُکتے۔میں باہر نکلتا تو حال احوال پوچھتے پھر گھر چلے جاتے۔ایک دن حسب معمول رُکے ان کے ہاتھ میں سگریٹ کی خالی ڈ ٖبیہ تھی اس کو الٹا کرکے اس پر کچھ لکھنے لگے میں باہر نکلاتو دستخط کرکے مجھے دیدیا اور کہا اس کو لفافے میں ڈالو اور خود جاکر سیکرٹری دفاع کو دیدو، ہاں میرا سلام بھی کہدو۔حسب ہدایت میں گیا اور میں نے وہ آمانت اپنے ہاتھ سے سکرٹری دفاع کو دیدی سیکرٹری دفاع نے پڑھنے کے بعد مجھے دکھایا۔سگریٹ کی اُس ڈبیہ پر لکھا تھا،پاک فوج کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کو مدت ملازمت میں ایک سال کی توسیع دی جاتی ہے۔نیچے صدر سکندر مرزاکا دستخط ثبت تھا۔اور مئی1958ء کی کوئی تاریخ لکھی ہوئی تھی۔سکرٹری دفاع نے اگلے روز دفتری ضابطہ کار کے تحت اعلامیہ تیار کیا۔صدر نے باقاعدہ اعلامیہ پر دستخط کئے اور اعلامیہ جاری ہوگیا۔یاد رہے نوٹی فی کیشن کو اعلامیہ بھی کہا جاتا ہے۔اس واقعے کو بیان کرنے کے بعد قدرت اللہ شہاب لکھتے ہین کہ جنرل ایوب خان جولائی میں مدت ملازمت پوری کرکے پنشن لینے والے تھے۔سگریٹ کی ڈبیہ پر لکھے ہوئے مختصر نوٹ نے ان کو ایک سال کی توسیع دیدی۔اکتوبر 1958 میں جنرل ایوب خان نے مارشل لاء نافذ کیا۔صدر سکندر مرزا کو قید کرکے جبری جلاوطن کیا اور اگلے دس سالوں تک ملک کے سیاہ سفیدکے مالک بن گئے۔ردی کاغذ پر لکھے ہوئے اس نوٹ نے قوم کی تقدیر مسخ کردی اور اس میں قاصد کی حیثیت سے میں نے بھی حصہ ڈال دیا۔سپریم کورٹ میں وہی کچھ ہوا جو شیخ سعدیؒ کے شعر کے ساتھ مدرسے میں ہوا تھا۔سارے طالب علم شعر کو غلط پڑھ رہے تھے۔یہ حال دیکھ کر شخ سعدیؒ روپڑے اور ناراض ہوکر کہنے لگے”شعر مرا بمدرسہ کہ برد“وہ کون بدبخت تھا جس نے میرا شعر مدرسے میں لے جاکربچوں کو دیدیا“ سپریم کورٹ نے دواعتراضات اعلامیہ کی زبان پر اُٹھائے ایک اعتراض دستخط کرنے والے کے دائرہ اختیار پر اُٹھایا۔اور آخری اعتراض اس بات پر کیا کہ دنیا کی بہترین فوج میں کمان کی تبدیلی کا بوجھ اُٹھانے کے لئے ایک اور افیسر ضرور ہونا چاہیئے تھا ایسا کیوں نہیں ہے زبان پر جو اعتراضات تھے۔وہ یہ تھے کہ اس میں آرمی ایکٹ کا حوالہ نہیں ہے۔مشورہ دینے والے کا ذکر نہیں ہے۔وزیراعظم کے مشورے پر آرمی ایکٹ کے تحت صدر مملکت کو اعلامیہ جاری کرنا تھا۔دستخط کرنے والا وزیراعظم اس کا اختیار نہیں رکھتا۔اختیار تو صدر کے پاس ہے۔جو وزیراعظم کے مشورے سے مسلح افواج کے سربراہوں کا صرف تقرر کرسکتا ہے۔مدت ملازمت میں توسیع کا ذکر آرمی ایکٹ میں کہیں نظر نہیں آتا۔اٹارنی جنرل انور منصور خان کا جواب بہت جاندار تھا اُس نے کہا”اب تک اسی طرح ہوتا آیا ہے“۔اور اس بات پر مجھے مئی1958ء میں صدر سکندر مرزا کا نوٹ یاد آیا۔جو انہوں نے جنرل ایوب خان کی مدت ملازمت میں ایک سال کی توسیع کے لئے ردی کاغذ پر لکھا تھا۔اس کے بعد ایوب خان،ضیا ء الحق اور پرویز مشرف نے خود اپنے اپ کو توسیع دیدی۔یحییٰ خان توسیع سے پہلے ملک توڑ کر فارغ ہوگئے۔جنرل کیانی کو توسیع دینے کے لئے یوسف رضاگیلانی نے ایڈوائس بھیجی صدر زرداری نے آنکھیں بند کرکے اُس پر دستخط کردیئے َاب عدالت کی نوٹس میں آگئی تو حقیقت کھل گئی کہ مدت ملازمت میں توسیع کاکام ردی کاغذپر لکھے ہوئے نوٹ سے شروع ہوا تھا۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔