داد بیداد….ترقیاتی اہداف

……ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی …..

خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان نے دو الگ الگ ملا قا توں میں صو بائی اسمبلیوں کے ارا کین اور انتظامیہ کے اعلیٰ حکام سے کہا ہے کہ حکومت نے عوام کو ریلیف دینے کے لئے اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کر کے ضلع کی سطح پر محکموں کو با اختیار بنا یا ہے اب تر قیا تی اہداف کو حا صل کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہو نی چا ہئیے وزیر اعلیٰ نے یہ بات ایسے وقت پر کی ہے جب پورے صو بے میں عوام تر قیا تی عمل کو تیز کرنے کے مطا لبے کر رہے ہیں بعض جگہوں پر لو گ بھوک ہڑ تالی کیمپ لگا کر بیٹھے ہوئے ہیں بعض جگہوں پر ایم پی اے صا حبان اور مقا می انتظا میہ کے افسران نے اپنی ضمانت پر احتجاج اور بھوک ہڑ تال ختم کرائی تھی تا ہم بے چینی مو جو د ہے لو گ پریشان ہیں وزیر اعلیٰ محمود خان بر وقت انتباہ کیا ہے کہ تر قیا تی اہداف کو حا صل کرنے میں کو تا ہی نہ کی جائے ہم انتہائی معذرت کے ساتھ عرض کرنے کی جسا رت کرتے ہیں کہ کو تا ہی سول سکرٹریٹ سے با ہر نہیں ہوتی سول سکرٹریٹ کے چار دفتروں میں تر قیا تی اہداف کو لٹکا یا جا تا ہے پہلا دفتر محکمہ خزانہ ہے جو فنڈ جاری کرنے میں 6ماہ لگا دیتا ہے دوسرا دفتر چیف پلاننگ افیسر کا ہے جو پی سی ون داخل کرتا ہے یہ پر جیکٹ سائیکل کی پہلی دستاویز ہے جس کی گیارہ کا پیاں دا خل کی جا تی ہیں اور ہر محکمے کا اپنا چیف پلا ننگ افیسر ہو تا ہے اس کا عہدہ آسانی کے لئے رکھا گیا تھا مگر وقت گذر نے کے ساتھ یہ بھی راستے کی رکا وٹوں میں سے ایک رکاوٹ بن چکا ہے تیسرا دفتر چیف انجینئر کا ہرسکیم کی فنی اور تکنیکی منظوری (ٹیکنیکل اپرول) اس دفتر سے ملتی ہے اور یہ اتنا مشکل کام ہے کہ ماونٹ ایورسٹ کو سر کرنا اس کے مقا بلے میں کچھ نہیں ایک بار ایسا ہوا کہ نا شتے کی میز پر دو جگری دوستوں میں بحث ہوئی ایک نے کہا آج میری سکیم کی ٹیکنیکل اپرول مل جائیگی دوسرے نے کہا اگر تمہیں مل گئی تو میں 20لاکھ روپے اسی میز پر رکھ دونگا پہلے دوست نے کہا 20لاکھ روپے میز پر رکھ دو میں ایک گھنٹے میں اپرول لیکر آجاتا ہوں مسئلہ تو اسی 20لاکھ روپے کا ہے شانگلہ، دیر، چترال اور دیگر پہاڑی اضلاع کے تجربہ کار فیلڈ افیسر اپنے ہمراہ اے کلا س کنٹریکٹر کو لیکر آ جا تے ہیں جہاں مٹھی گرم کرتی ہو کنٹریکٹر آگے بڑھ کر چھو منتر دکھا تا ہے پھر سکیم کے ٹینڈر میں اپنا حصہ وصول کرتا ہے اس ہفت خوان کے طے ہونے کے بعد فیلڈ افیسر سکون اور ارام کی نیند نہیں سوتا جو فنڈ منظور ہوا ہے بینک کے لئے اس رقم کی پنچنگ (Punching) لا زمی ہے اور یہ چو تھا مر حلہ ہے ما لی سال کی دوسری ششما ہی میں کوئی سکیم آجائے تو سول سکرٹریٹ کے چاروں دفاتر مل کر کو شش کرتے ہیں کہ 30جو ن سے پہلے رقم ریلیز نہ ہو اور 30جون کی شام کو سارا فنڈ اگلے سال کے لئے مو خر یعنی لیپس(lapse) ہو جائے اور اکثر اوقات ایس اہی ہو تا ہے اس لئے فیلڈ افیسروں کو اختیارات دینا کا فی نہیں سول سکر ٹریٹ میں فنڈ کی منظوری اور اجراء کے نظام پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے اخبارات میں دو اہم خبریں آتی ہیں ایک خبر یہ ہے کہ ضم شدہ اضلاع کے لئے بجٹ میں 66ارب روپے رکھے گئے تھے پہلی ششما ہی میں صرف 3.7ارب یعنی 3ارب 70کروڑ روپے خرچ ہوئے با قی رقم یعنی 61ارب 30کروڑ روپے واپس کئے گئے دوسری ششما ہی جنوری سے جون تک اور بھی مشکل وقت ہے اس وقت پہا ڑی علا قوں میں 3مہینے کام بند ہو تا ہے صرف 3مہینے رہ جا تے ہیں جون کے آتے آتے فنڈ کا ایک حصہ لیپس (Lapes) ہونا یقینی بات ہے تر قیاتی اہداف کو حا صل کرنے کے لئے ان تمام امور کو پیش نظر رکھنا ضروری ہو گا مدین، بحرین، کا لام، مستوج، الپوری، بٹگرام، داسو اور چارسدہ کے مو سموں کا فرق بھی پیش نظر رہنا چا ہئیے مر حوم جنرل فضل کے پاس ہیلی کا پٹر کی سہو لت تھی وہ اس سہو لت سے فائدہ اٹھا کر مختلف مو سموں میں صوبے کے دور دراز علاقوں کا دورہ کیا کرتے تھے تر قیاتی سکیموں کا معائینہ کرتے تھے وہ ریت اور بجری کو بھی دیکھتے تھے سیمنٹ کے معیار کو بھی پرکھتے تھے پنجاب میں چوہدری پرویز الٰہی اور شہباز شریف، دونوں اس طرح کے دورے کرکے تر قیا تی سکیموں کی نگرانی کرتے تھے چوہدری پرویز الٰہی کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ لے آوٹ (Lay out) میں پائی جانے والی خرا بیوں کی نشان دہی کرکے دیواریں گرا دیتے تھے اس لئے فیلڈ افیسر اور کنٹریکٹر دونوں اُن سے ڈر تے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ کام میں کوئی نقص نظر نہ آئے خیبر پختونخوا پچھلے 5سالوں میں قدرتی آفات سے بہت متاثر ہوا ہے ہزارہ اور ملا کنڈ کے کئی اضلاع میں 2015ء کے سیلاب اور زلزلے سے متا ثرہ انفراسٹر کچر کو اب تک بحال نہیں کیا گیا ما لی سال کی اگلی ششما ہی میں اگر وزیر اعلیٰ کے احکا مات پر صدق دل سے عمل کیا گیا تو اُمید ہے کہ حکومت کے وژن کے مطا بق تر قیا تی اہداف کا حصول ممکن ہو جائے گا ور نہ حبیب جالب نے 100باتوں کی ایک بات اس شعر میں کہی ہے
سر منبر وہ خوابوں کے محل تعمیر کرتے ہیں
علا ج غم نہیں کرتے فقط تقریر کرتے ہیں

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔