وہ بینظیر اب بھی “بینظیر ” ہے۔

(تحریر ۔ حنا ناہید طالبہ ایف سی پی ایس مستوج)  …….
عموماً عورت کو صنف نازک اور کمزور سمجھا جاتا ہے مگر دنیا کی تاریخ میں بغض ایسی عورتیں بھی پیدا ہوئیں جنہوں نے اپنی بے پناہ صلاحیتوں کی وجہ سے نہ صرف دنیا کی توجہ کا مرکز بنیں بلکہ اقوام کی ترقی اور خوشحالی کیلیے ایسے کام سرانجام دئےجنھیں مرد حضرات بھی کرنے سے قاصر تھے۔ دنیا کی ترقی اور خوشحالی کیلیے ایسے غیرمعمولی کارنامے سرانجام دینے والوں میں ایک نام بلاشبہ دختر مشرق محترمہ بینظیر بھٹو کا بھی ہے۔
محترمہ بینظیر بھٹو نے 21 اپریل 1953 میں صوبہ سندہ کے ایک دولت مند گھرانے میں آنکھ کھولی ۔ ابتدائی تعلیم پاکستان میں ہی حاصل کی جبکہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلیے بیرون ملک چلی گئی۔ یونائیٹڈ سٹیٹ کے ریڈکلف کالج پھر ہاورڈ یونیورسٹی سے بی اے کی ڈگری حاصل کی ۔ اس کے بعد اکسفورڈ یونیورسٹی سے بین الاقوامی قانون اور سفارت کاری کا کورس مکمل کرکے 1977 کو پاکستان لوٹی۔
اس وقت ان کے والد ذولفقار علی بھٹو پاکستان کے وزیراعظم  تھے۔ ان کے ساتھ ملک کے خارجہ امور میں خدمات سرانجام دینے لگی۔ پھر کچھ ہی مہینوں میں حالات نے رخ موڑ لیا۔ جنرل ضیاءالحق نے اقتدار پر قبضہ کرکے ملک کے وزیراعظم اور ان کے والد ذولفقار علی بھٹو کو جیل بھیج دیا۔ اور 1979 میں ذولفقار علی بھٹو کو ایک قتل کے الزام میں پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ اور بھٹو خاندان کیلیے برا وقت شروع ہوا۔ 1984 میں بینظیر بھٹو کو جیل سے آزادی ملنے کے بعد جلاوطنی کی سزا سنا دی گئی۔ اس وقت پارٹی رہنماؤں نے مشاورت سے اسے پارٹی لیڈر منتخب کیا۔ وہ مارشل لاء کے خاتمے کیلیے کوششیں جاری رکھی۔ 1987 میں وہ آصف علی زرداری سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئی ۔ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ سیاست کا دامن تھامے رکھا اور جدوجہد جاری رکھی۔
والد کی وفات کے بعد اپنی والدہ نصرت بھٹو کا سہارا بنی رہی اور پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے دوبار وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔ بینظیر بھٹو مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم تھی جنہوں نے مردوں کے شانہ بشانہ ملک کی ترقی و خوشحالی کیلیے کام کیا۔ اپ نے پاکستان پیپلز پارٹی کی بکھری ہوئی طاقت کو یکجا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ 1988 کے انتخابات کے بعد وہ سب سے کم عمر اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بن گئی۔ اس کے بعد بھی وہ ایک بار وزیراعظم اور دو مرتبہ قائد حزب اختلاف منتخب ہوئی۔
بینظیر بھٹو بلاشبہ ایک نڈر اور بیباک خاتون تھی۔ بحالی جمہوریت کیلیے اسکی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائینگی۔ وہ دہشت گردوں کے خلاف بہت جارحانہ رویہ رکھتے تھے۔ جس کی وجہ سے دہشت گرد اس کے جان کے درپے ہوگیے۔ بلاآخر 27 دسمبر 2007 میں راولپنڈی کے لیاقت باغ جلسے سے واپسی پر اس کے اوپر دہشت گردوں نے حملہ کرکے اسے شہید کردیا۔ بینظیر بھٹو اس ملک کی دو بار وزیراعظم رہنے والی خاتون ہی نہیں بلکہ بلاول، آصفہ اور بختاور کی ماں بھی تھی۔ مگر سفاک دہشت گردوں نے ایک ماں کو بھی نہیں چھوڑا اسے بھی شہید کردیا ۔ بینظیر بھٹو مری نہیں بلکہ امر ہوئی۔ وہ مر کے بھی زندہ ہے ۔ بینظیر بھٹو کی زندگی کے کافی سارے پہلو خواتین کیلیے قابل تقلید ہیں۔ انہوں نے ہر میدان میں مردوں کا شانہ بشانہ مقابلہ کیا حالات سے بھاگنے کی کوشش نہیں کی بلکہ حالات کا مقابلہ کیا۔ وہ تب بھی بینظیر اور اپنی مثال آپ تھی اور آج بھی پیپلز پارٹی بلکہ پاکستانی سیاست میں اس کا کوئی ثانی نہیں آج بھی بے مثال اور “بینظیر ” ہے۔ اور آج میں انکی بارھویں برسی کے موقع پر انھیں خراج تحسین پیش کرتی ہوں کہ بینظیر آج بھی بینظیر ہے اس کا ثانی آج بھی پاکستانی سیاست میں دور دور تک نہیں۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔