دھڑکنوں کی زبان…..کیچن کو تالا لگا دو

……محمد جاوید حیات ……

مطبخ کو کسی زمانے میں جب کہ اردو کسی ملک کی قومی زبان نہیں ہوا کرتی تھی ”باورچی خانہ“ کہا کرتے تھے۔پھر ایک ”آزاد ملک“ بنا۔اردو اس کی قومی زبان قرار پائی تو اردو کے سارے الفاظ انگریزی میں ڈھل گئے۔مطبخ ”کیچن“ بن گیا۔۔مطبخ کسی گھرانے کا تعارف ہوا کرتا تھا۔جس گھرانے کا مطبخ آباد ہو وہ گھرانا خوشحال اور کھاتا پیتا خیال کیا جاتا۔جس گھرانے میں چولہا نہ جلتا ہو وہ غریب کہا جاتا۔لوگ ایک دوسرے کا ہجو کرتے تو ”مطبخ“ کوخاص ہدف پہ رکھتے۔
العرض مطبخ اس گھرانے کی
رشک ہے ابدار خانے کی
کیا ہی تشبیہ سے مخالف کو نیچے دکھایا ہے۔اللہ سلامت رکھے امت مسلمہ کو جب اس کی ابتدا ء ہوئی تھی۔تو فقرو فاقہ سے ابتداء ہوئی۔سردار دو جہانﷺ کے مطبخ میں کبھی بھی دو سالن اکھٹے نہ پکے۔۔فرمایا۔۔یا اللہ ایک دن مجھے کھلا تاکہ شکر کروں دوسرے دن بھوکا رکھ تاکہ صبر کروں اور تجھ سے مانگوں۔پھر سخت گیری میں اس قوم کی تربیت ہوئی اور یہ چٹان بن گئی۔فلاحی مملکت کی بنیادی تعریف یہ ہے کہ وہاں کسی کے کیچن میں تالا نہیں ہوتا۔چولہا جلتا ہے۔ اگر کسی دریا کے کنارے کتا بھی بھوکا ہو تو حکمران فکرمند ہوتا ہے۔فلاحی مملکت میں غریب ہد ف ہوتا ہے اس کی زندگی مملکت کا معیار ہوتا ہے۔اگر وہ خوشحال ہے تو مملکت خوشحال ہے اگر وہ بدحال ہے تو مملکت بدحال ہے۔ملک خدادادمیں غریب کو جگانے کا نعرہ بھٹو سینئر نے لگایا۔کہنے والے کہتے ہیں کہ اس نے سعودی عرب کے بادشاہ سے بھیک مانگی کہا میرے پاس افرادی قوت ہے یہ لوگ مزدوری پہ آپ کے ہاں آئیں گے لوگ مزدوری پہ ان کے ہاں جاتے رہے سلسلہ اب بھی جاری ہے۔اگر اتفاق فاؤنڈیشن اپنے ساتھ اپنے باشندوں کو لے جاتے اور بھیک مانگتے تو کیا برا تھا کتنوں کے کیچوں کے تالے کھلتے۔ مگراس کے بعد کسی حکمران کواپنی پڑی مگر غریب کے کیچن کاتالابند ہی رہا۔ ہر دور میں مہنگائی غریب کے کیچن کوتالا لگاتی ہے۔حکومت کواحساس نہیں ہوتا کہ اس معاشرے میں ایسے لوگ ہیں جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارتے ہیں۔اس مہنگائی سے ان کاچولہا بجھ جائے گا۔اور کچن کوتالالگ جائے گا۔جس ملک میں بلدیہ برائے نام ہو انتظامیہ خاموش ہو،مارکیٹ اور بازار میں پوچھنے والا کوئی نہ ہو تو سارے کیچن مقفل ہوتے ہیں۔پولیس رپورٹ کے انتظار میں ہوتی ہے۔ایک مجبور شہری کے پاس نہ اتنا وقت ہوتا ہے نہ اس کے اتنی اوقات ہیں کہ جا کرتھانے میں رپورٹ کرکے ایس ایچ اوکا ڈانٹ پی لے۔حکومت کی مشینری کام کر رہی ہو تو ساری الجھنیں سلجھ جاتی ہیں۔ورنہ تو آئے روز پریشانیاں ہوتی ہیں اور اس میں غریب پیسا جاتا ہے۔بازار جاؤ آج صبح سبزی کا بھاؤ جیسا ہے شام کو ویسا نہیں نہ آپ کسی سے پوچھ سکتے ہیں نہ کوئی اور پوچھتا ہے۔ دکاندار کے پاس بہانے ہیں ڈرائیور کے پاس بہانے ہیں۔اگر غلطی سے پوچھا جائے کہ بھائی جان!اس ٹیلیفون میں بیلنس ساڑھے تین سو کاہوتا تھا اب یکدم ساڑھے چار سوکا ہوگیا تو وہ بڑی بے اعتنائی سے کہے گا جاؤ کمپنی والوں سے پوچھو۔۔کمپنی والوں سے پوچھنے والا کوئی نہیں۔اس کی سروس ناقص ہوگی یہ بھی ان سے کوئی نہیں پوچھے گا۔۔فلحال ملک میں ٹیلی نار کی سروس ناقص ترین ہے۔کیا یہ کمپنیاں کسی حکومت کے زیر اثر ہیں۔اس کوسوچنا پڑتا ہے کہ زندگی کی گاڑی کو کہیں کھڑی ہی کی جائے۔کیچن کوتالالگایا جائے ا س لئے کہ جیبیں خالی ہیں۔ہاتھ خالی ہیں۔غریب حیران و پریشان ہیں قوت خرید جواب دے گئی ہے۔پورے دن کی مزدوری ایک وقت کا کھانا پورا نہیں کرتی اب فاقے کی نوبت میں انسان کیاکرے۔حکومت وقت اپنی بساط کے مطابق کام کر رہی ہے اگر معاشرے کے تمام سٹیک ہولڈرز کواحساس ہو کہ وہ ایک فلاحی ملک کے باشندے ہیں تب معاشرہ بن سکتا ہے۔صرف حکمرانوں کی کوششوں سے کچھ بنتا نہیں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔