پَلس رپورٹ بمقام پُلس رپورٹ

………تحریر:تقدیرہ خان…….

پَلس اور پُلس میں بظاہر زبر اور پیش کا فرق ہے مگر حقیقتاً سالوں کا نہیں بلکہ صدیوں کا فاصلہ ہے۔ پَلس میں زندگی ہے، آس و اُمید ہے، سوچ وفکر ہے اور عزم و استقلال ہے۔ پَلس قائدانہ صلاحیتوں کا اظہار اور قائد کا عوام پر اور عام کا قائد پر اعتماد ہے۔پَلس سیاست کی بنیاد اور انسانی فلاح و بہبود کا معیا ر ہے۔ ہماری بد قسمتی کہ سوائے بانی پاکستان کے کسی لیڈر کوپَلس رپورٹ نہ ملی اور نہ ہی کسی لیڈر یا قائد نے پَلس رپورٹ کی فکر کی۔ مرحوم ذوالفقار علی بھٹوکو پَلس رپورٹ کا خیال تو تھا مگر استعمال کا ہنر نہ جانتے تھے۔ بھٹو ذہنی صلاحیتوں اور علمی قابلیت کے باوجود پَلس رپورٹ سے غافل ہوگئے اور پُلس رپورٹ کی بھینٹ چڑھ گئے۔
راجہ انور لکھتے ہیں کہ ذوالفقارعلی بھٹو کو ایوب خان نے کابینہ سے نکال باہر کیا تو بھٹو سخت مایوسی کے عالم میں بذریعہ خیبر میل پنڈی سے کراچی روانہ ہوئے۔ پنڈی ریلوے اسٹیشن پر وہ اکیلے آئے تو میں یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ طویل عرصہ ملک کے وزیر خارجہ رہنے والے شخص کو کوئی دوست یا چھوٹا ملازم بھی رخصت کرنے نہ آیا۔
میں نے بھٹو صاحب کو سلام کیا اور اجازت لیکر اُن کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ میں نے بھٹو صاحب سے بذریعہ ٹرین سفر کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ میں عوام کی نبض چیک کرنا چاہتا ہو ں۔ اگرعوام نے میرا ساتھ دیا تو سیاست کرونگا ورنہ خاموشی اختیار کرلونگا۔ راجہ انور لکھتے ہیں کہ گوجر خان تک ایک جم غفیر اُمڈ آیا اور گوجر خان ریلوے اسٹیشن پر بھٹو نے پہلے عوامی جلسے سے خطاب کیا۔ گوجر خان سے لاہور تک ہر چھوٹے بڑے اسٹیشن پر ہزاروں لوگ گاڑی روک لیتے اور بھٹو جلسوں سے خطاب کرتے۔ دوسرے روز خیبر میل لاہور پہنچی تو بھٹو نے کراچی کا سفر موخر کر دیا۔
بھٹونے عوام کی نبض تو چیک کر لی مگر اُس پر ہاتھ نہ رکھا اور نہ ہی دوران اقتدار پَلس رپورٹ لیکر لوگوں کے دکھ درد کا مداوا کیا۔ بھٹو نے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ تو لگایا مگر وعدہ پورا نہ کیا۔ پتہ نہیں کہ بھٹو جیسے زیرک سیاستدان کا یہ احساس کیوں نہ ہوا کہ روٹی، کپڑے اور مکان کے لیے پانی جیسی نعمت آشد ضروری ہے۔ پانی ہوگا تو فصلیں پیدا ہونگی، بجلی بنے گی اور صنعتیں چلیں گی تو خوشحالی بھی آئے گی۔ بھٹو کے نعرے کی بنیاد پانی تھا اور پانی کی فراوانی سے ہی پاکستان کا مستقبل وابستہ تھا۔
ایوب خان کے دور میں منگلا ڈیم مکمل ہو چکا تھا اور تربیلہ تکمیل کے آخر مرحلے میں تھا۔ کالا باغ ڈیم پر ابتدائی کام مکمل تھا اور عالمی بینک سمیت دیگر عالمی مالیاتی ادارے کالا باغ ڈیم پر سرمایہ لگانے کو تیار تھے۔ کالا باغ ڈیم کے مخالفین بھی نہیں تھے اور نہ ہی بھارت کوکوئی اعتراض تھا مگر باوجود اس کے بھٹو نے ایوب دشمنی کی آڑ میں کالا باغ ڈیم کا منصوبہ ترک کر دیا اور پھر ضیا الحق کے دور میں جنرل فضل حق نے ضیاء الحق کو بلیک میل کرنے کے لیے کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرتے ہوئے اے این پی کو بھی اس سازش میں شامل کر لیا۔
کالا باغ ڈیم پاکستان کی خوشحالی کی بنیاد اور عوام کی پَلس رپورٹ ہے۔ جوں جوں وقت گزر رہا ہے تیل اور گیس کے ذخائر کم ہو رہے ہیں۔ عوام خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور حکمران پَلس رپورٹ سے غافل ہیں۔ بیروزگاری، غربت اور بیماری کی وجہ سے عوام کی پَلس مائل بہ زوال ہے۔ مگر حکمران طبقہ پُلس رپورٹ پر انحصار کا عادی ہو چکا ہے۔ حکمران سب اچھاہے کے علاوہ کوئی بات سننے کی ہمت نہیں رکھتے اور نہ ہی کس کو پَلس رپورٹ کی فکر ہے۔
دیکھا جائے تو ہماری قومی اور ملکی پریشانیوں کی بنیادپُلس رپورٹ ہے۔پُلس رپورٹ ایک عوام کُش فارمولہ ہے۔ انسانی تاریخ میں جن حکمرانوں نے پُلس رپورٹ کو مسترد کر تے ہوئے پَلس رپورٹ پر مبنی اصول و ضوابط مرتب کیے وہ ہمیشہ کامیاب ہوئے اور عوام کی خوشحالی او ر امن کا باعث بنے۔ آزادی کے بعد کسی حکمران نے پَلس رپورٹ پر توجہ دی اور نہ ہی عوام الناس نے خود اپنی پَلس کا خیال رکھا۔ اگر عوام اپنی روحانی اور جسمانی صحت کا خیال رکھتی تو حکمرانوں کے پلیٹلیٹس نہ گرتے اور نہ ہی انہیں ان گنت بیماریوں کا سامنا کرنا پڑتا۔ حکمرانوں نے عوام کے منہ سے نوالہ اور جیب سے پیسہ نکال کر بیرون ملک منتقل کر دیا اور عوام مفلس اور بدحال ہوکر بھی اپنے آقاؤں کو خوشحال دیکھنے کی آرزو کرنے لگے۔ اپنے بچے جیسے بھی زندگی گزاریں عام آدمی کو اس کی فکر نہیں مگر زرداری اور نواز شریف کے بچوں کی فکر میں ذلت و رسوائی کی زندگی بھی قبول ہے۔
پڑھا لکھا طبقہ ان پڑھوں سے کم نہیں۔ہر شخص پُلس رپورٹ کا عادی ہے اور کسی نہ کسی طرح اپنی تشہیر چاہتا ہے۔ ڈاکٹروں اور وکیلوں نے مل کر نہ صرف ملک وقوم کو رسوا کیا بلکہ وہ اس قومی خدمت کو مزید تقویت دینے اور قوم کی نبض کی بے قدری اور بدحالی کے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔ جس طرح وکیلوں نے ملک کے مستقبل کی منصوبہ کررکھی ہے اگر یہی حالات رہے تو ملک کسی بڑے بحران کا شکار ہو جائے گا۔
جنرل پرویزمشرف کی سزا بھی ایک گھناؤنی ساز ش کا حصہ ہے جس کا مقصد ملک میں افراتفری پھیلانا اور قانون کی حکمرانی کا خاتمہ ہے۔ جنرل مشرف کی سزا کا تفصیلی فیصلہ پڑھ کر پیپلز پارٹی کے بیرسٹر اعتزاز احسن اور ن لیگ کے محمد زبیر سمیت بہت سے قانون دانوں، پارلیمنٹرین، اہل علم و عقل اور علمائے کرام نے یک زبان ہو کر اس فیصلے کو نہ صرف مسترد کیا ہے بلکہ اسے ایک گھناؤنی سازش اورعقل سے عاری انتقامی کارروائی قرار دیا ہے۔ بہت سے قانون دانوں نے فیصلہ لکھنے والے محترم اورمعتبر جج صاحب کے خلاف صدارتی ریفرنس بھیجنے کی سفارش کی جسے حکومت نے وقتی طور پر تو قبول کر لیا مگر پھر ڈان لیک کی طرح دائمی خاموشی اختیار کر لی۔
23دسمبرکے شام 7بجے کے پروگرام میں مشہور اور قابل اعتماد صحافیوں جناب صابر شاکر اور جناب غلام حسین چوہدری نے اے آروائی پر اپنے ٹاک شو میں انکشاف کیا کہ سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے خود چوہدری صاحب سے کہا کہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ ایک سازش ہے۔ چوہدری صاحب نے یہ خبر بھی دی کہ اگر جج صاحب کے خلاف ریفرنس بھجوایا گیاتو وکیل ملک گیر احتجاج کرینگے اور نظام عدل مفلوج کر دینگے۔ اگر ایسا ہی ہے تو یقینا حکومت کو محض پُلس رپورٹ پر ہی نہیں پَلس رپورٹ پر بھی دھیان دینا ہوگا کہ آخر اس سازش کے پیچھے کون ہے۔؟
مولانا کو ثر نیاز لکھتے ہیں کہ ایک وہ دور تھا جب بھٹو کا ہاتھ عوام کی نبض پر تھا اور بھٹو کا دل عوام کے دل کی دھڑکن سے گرماتا تھا۔ پھر وہ دن بھی آئے کہ بھٹو کے کاموں کی تشہیر کی ضرورت پیش آگئی چونکہ بھٹو اور عوام کے درمیان دوریاں پیدا کر دی گئیں تھیں۔ یہ سب پُلس رپورٹوں کی وجہ سے ہوا اور وزیراعظم کے کارناموں کی تشہیر کا آئیڈ یا بھی ایک پولیس والے راؤ رشید کاہی تھا۔پُلس رپورٹ کبھی سچ پر مبنی نہیں ہوتی اور نہ ہی حکمرانوں اور عوام کے درمیان اعتماد کا باعث بنتی ہے۔ دنیا میں وہی حکمران کامیاب ہوتے ہیں جو پَلس رپورٹ پر یقین رکھتے ہیں اور عوام کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہیں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔