جناب عمران اورریاست مدینہ

 تحریر۔ شہزادہ مبشرالملک

………….shmubashir99@gmail.com ………..
٭قدیم عرب:
معاشرئے میں جتنی بھی خرابیاں موجود تھیں وہ بدقسمتی سے سب ہمارے معاشرئے میں نہ صرف موجود ہیں بلکہ روز بروز زور پکڑتے جارہے ہیں۔ مگر قدیم عربوں میں چند ہی ایسے جرائم تھے جو آج تک ان کی بدنامی کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ معاشرئے کو درست رکھنے کے لیے ”حکومت“ کا ہونا بہت اہمیت رکھتا ہے جو عربوں کو میسر نہ تھی، قبائلی اور خاندانی تعصبات تھے جو جہالت کی آگ کی بدولت انسانی اقدار کو بھسم کیے جارہے تھے۔ توحید کا اقرارجو انسان کی منزل کے تعین کے لیے بہت ضروری ہے اس میں یہ لوگ شراکت کے قائل تھے۔شراب ان کا پسندیدہ مشروب تھا۔ رقص و سرور اورطوائف سے دل بہلانا ان کے ہاں عام ہوچکا تھا۔ اس کے علاوہ اچھے اور متلاشیاں حق کی بھی ایک کثیر تعداد موجود تھی۔ عرب بہادر، غیرت مند، جفاکش، وفا شعار، مہمان نوازبھی تھے۔ ان حالات میں اللہ کے رسول ﷺ نے شہر مکہ چھوڑ کے مدینہ جاکے ایک اسلامی فلاحی ریاست کا قیام عمل میں لایا۔ جس کی نظیر نہ سابقہ ادوار میں مل سکتی ہے اور نہ اس کے بعد دنیا پیش کرسکا۔ جس کی مثالیں نہ صرف مسلمان دے رہے ہیں بلکہ غیر مسلم بھی عزت و تکریم سے اس ریاست کا نام لے رہے ہیں
۔
٭پاکستان:
جو اسی ریاست کے اصولوں پر بنانے کے نعرے سے وجود میں آیا۔مگر حضرت قائد کے بعد کوئی بھی حکمران اس جانب توجہ نہ دے سکا۔کیونکہ وہ خود یا ان کے کابینہ میں موجود وزراء اسلام کے بنیادی اصولوں سے واقف نہ تھے یا اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کو ”جدید دنیا“ کے مقابلے میں ”ناقابل عمل“ تصور کرنے کا”یقین محکم“ لیے جلوہ افروز ہوتے رہے۔ ”جنرل ضیاء شہید“نے عملی طور پر اسلامی ریاست کی کوشیش کیں اور کچھ حد تک ان کا دور اسلامی نظر بھی آتا تھا۔مگر بدقسمتی سے مسلکی ا ختلافات نے انہیں کا میاب نہ ہونے دیا۔بے نظیر… دور میں آزادی کا ”جن“ بوتل سے نکل آیا اور جو پابندیاں میڈیا۔ سینما۔ ہوٹلوں۔ کلبوں پر تھیں وہ سب ہٹ گئیں اور ہم نیم اسلامی اسٹیٹ سے پھر ” بھٹو دور“ کے واہیات سے آشنا ہوئے۔ نواز شریف بھی ضیاء شہید کے نقشے پر چلنے کا اسلامی نعرہ لیے وارد ہوئے اور قومی اسمبلی سے ”شریعت بل“ پاس کروانے میں کامیاب بھی ہوئے مگر سینٹ میں اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے کامیاب نہ ہوئے۔ دوسری بار جب مسند اقتدار پربراجمان ہوئے تو بھولے سے بھی” شریعت“ کا نام نہ لیا اور”میڈان پاکستان“ کہنے والے وزیر اعظم نے ہمیشہ کے لیے ” شلوار قمیص“ کو بھی الودع کہہ کر جدید دنیا کے رنگ میں رنگ گئے۔ دور مشرف کا ابتدائی دور بہتر رہا مگر الیکشن کے بعد جب ایم ایم اے ایک بھرپو ر ” رنگ روپ“ میں سامنے آئی تو ہم اس خوش فہمی میں مبتلا رہے اب اس ملک میں شریعت کے دروازے ضرور وا ہونگے مگر ذاتی اغراض، مراعات کے حمام میں خوب بہت خوب نہانے کے بعد بھی غلطی سے ”جعلی اسلام پسندوں“ نے شریعت کے نام پر ایک بل، ایک قراداد ایک بول تک بولنے کی زحمت گوارا نہ کی۔ KPK میں مضبوط حکومت ہونے کے باوجود اسلامی قوانین نافذ نہ کر سکے۔خیبر بنک سے جرمنی نے بیس کڑور روپے نکالنے کا اعلان کیا تو امیرجماعت سراج الحق صاحب دوڑے جرمنی پہنچے کہ خیبر بنک کا دیوالیہ نکل جائے گا یہ ظلم عظیم نہ ڈھایا جائے اگر اخلاص ہوتا تو یہ پاکستان ہی میں اس سے زیادہ سرمایہ اسلام پسندوں سے جمع کرواسکتے تھے۔ آخر ”درانی سراج پلس“ کا یہ سنہرا دور مشرف کے ساتھ ”فرنڈلی فائر“ ہی میں گزر گیا اور تاریخ دیکھتا ہی رہا کہ اسلام کے نام پر اسلام پسندوں نے کیا کیا ”گُل کھیلائے“۔ اب مدتوں کے نعروں اور کوشیش بسیار کے بعد ”پردوں ہی پردوں“ ”نیا پاکستان“ عمل میں آیا تو جناب عمران خان ہر قدم پر ”مدینہ کی ریاست“ کا نام مبارک لے کر ہم جیسے لاکھوں ”غلامان مدینہ“ کا لہو گرماتے تو ہیں مگر جس اقدام کی سب سے پہلے ضرورت ہے وہ نہیں کرتے نظر نہیں آتے دور دور تک اسلام کی ہوائیں چلتی نظر نہیں آتیں اور اسلام پسندی کا دعویٰ کرنے والے بھی” بغض معاویہ“ میں اسلام کا مطالبہ نہیں کرتے۔چند بس اڈوں پہ ”مسافر خانے “ بنانے ہسپتالوں میں ”صحت کارڈ“ تقسیم کرنے سے ریاست مدینہ کا خواب شر مندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ اس قسم کی فلاحی ریاستیں یورپ، امریکہ، عرب غرض ہر جگہ موجود ہیں۔مدینہ کی ریاست ایک ہی تھی اور قیامت تک ایک ہی رہے گی۔ہر بات میں اس کا تذکرہ کرنا اس کا دعویٰ کرنا انتہائی بے ادبی اور بے شرمی کی بات ہے۔
.؎ مدینہ کہاں اور کہاں میں کمینہ تصور کو بھی آرہا ہے پسینہ ؟
٭ مواخات مدینہ :
آپ ﷺ جب مدینہ پہنچے تو سب سے پہلے ”مواخات مدینہ“ کا کارنامہ عظیم انجام دیا۔ مدینہ میں ”قبیلہ اوس“ و ”خزرج“ کے درمیاں دشمنیوں، عداوتوں کو مٹا کر اخوت و بھائی چارئے کی لڑی پیرو کر ایک کر دیا۔اس کے علاوہ ”مہاجریں اور انثار“ کو بھائی بنا کر اس ریاست کی بہبود اور معاشی مشکلات کے لیے کام کر نے کے احکامات دئیے۔ اس اقدام سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرئے میں…امن… سکون… قائم کرے اور نفرتوں کے سارے دروازے بند کر دئے۔ یہ سب اللہ کے رسول ﷺ نے صلع صفائی مذاکرات اور اسلامی تعلیمات سے کروائے تھے…. تلوار… کے زور سے نہیں۔ کیا ”نیا پاکستان“ میں عصبیتوں کدورتوں کو مٹانے کے لیے جناب عمران نے کوشیش کیں ؟ جواب بہت تلخ ہے۔ پاکستان کے دیگر لسانی، گروی، مسلکی،قومی تو دور کی بات پارلیمنٹ کے اندر موجود اپوزیشن سے آپ کا رویہ انتہائی”غیر دانشمندانہ اور جاہلانہ“ ہے جو اس ملک میں انتشار کا سبب اور حضور ﷺ کی تعلیمات اور پہلے اقدام ”مواخات مدینہ“ کے بر خلاف ہے؟ اس کے باوجود آپ مضر ہیں کہ آپ ”ریاست مدینہ“ بنا رہے ہیں۔
٭ میثاق مدینہ:
آپ ﷺ جب ریاست مدینہ کی بنیاد رکھ رہے تھے تو سب سے پہلے مدینہ میں موجود مختلف قبائل کے نمائیندوں کا اجلاس بلایا اور ریاست بنانے، اسے استحکام دینے، اس کی حفاظت کے لیے باہمی مشاورت سے ”دنیاکا پہلا دستور“ مرتب کیا جسے” میثاق مدینہ“کہا جاتا ہے۔ تمام مذاہب کو مکمل آزادی، ریاست کی مشترکہ دفاع، باہمی اتفاق اوراتحادی قبائل کے لیے سفارت کا ری سب سے نمایاں دفعات تھے۔ آج نئے پاکستان میں ہم آپس میں دست و گریبان ہیں، قبائل سے لے کر بلوچستان تک سندھ سے خنجراب تک لوگ مطمین نہیں ملک و ملت کے خلاف روز بروز فتنے اٹھتے جارہے ہیں۔ ناراض گروہوں کو”ملک دشمن“ کا لیبل لگا کر دشمنوں کے ہاتھ مضبوط کرنے کا کھیل مدتوں سے جاری ہے۔ سیاسی انتشار کا نہ تھمنے والا طوفان ہے، بے روزگاری کا جن بے قابو ہے، منگائی کا سونامی روان دوان ہے، عسکری محاذ میں جنگ کے سائے منڈلارہے ہیں۔ خارجی محاذ میں پڑوسیوں کا اعتماد ہم سے اٹھ چکا ہے۔ برادر ممالک میں ہماری ساکھ ”پالک ساگ“ سے بھی بے قیمت ہوچکی ہے۔ ایک اقوام متحدہ میں…. تقریر جھاڑ…. کر عالم اسلام کی قیادت کا خواب دیکھا۔ ملتانی حلوہ اڑاکے ملک سے باہر نہ نکل کر خارجہ محاذ گرم رکھنا۔ اس ہنگامی حالات میں بھی ہمارے سفارت خانوں کے مکینوں کا خواب خرگوش سے بیدار نہ ہونا۔ کشمیر کی زمین کو کشمیرویوں سے زیادہ اہمیت دنیا، طالبان سے خالی ملکی مفاد کی خاطر کام لینا اور وہ جس”نظام اسلام“ کے لیے بیس سالوں سے تاریخ رقم کر رہے ہیں اس سے ”توبہ استغفار“ کرنا۔کیا یہ ”ریاست مدینہ کی جانب قدم ہے یا ریاست…. ناپرسان کی جانب؟ پھر بھی یہ راگ کیوں الاپا جارہا ہے کہ ریاست مدینہ بنے جارہی ہے۔
٭ فلاحی ریاست:
٭تعلیم…..مسجد نبوی….. کے قیام کے بعد سب سے زیادہ زور آپ ﷺ نے تعلیم پر دیا،۔ طلبا ء مسجد ہی میں دینی تعلیم، خوش خطی، عصری علوم، جنگی مشق کی تربیت حاصل کرتے۔ مقامی تعلیم میں مذہبی تعلیم جن میں دین عقائد، اخلاق۔ تاریخ،سوانح جغرافیہ، فلکیات، علوم بحر، سائنس، نباتات، حیوانات۔حجر۔ علم ہیت،علم جنین کی تعلیم دی جاتی جس معترف عالم کفر بھی ہے ہم ستر سالوں سے تعلیمی میدان میں تعلیمی اداروں میں تعلیم کی بربادی کا ذریعہ بنا کر طلباء تنظیموں کو اسلحہ تھماکر سیاسی، گروہی لڑائیوں میں لڑا کر، اور نکلنے کے بعد بے روزگاری کا تمغہ لگا کر، ریاست مدینہ پر بے روزگاروں کا بوجھ لدتے آرہے ہیں۔اور نئے پاکستان میں دوبارہ طلباء یونین کو بحال کر نے دوبارہ اپنے پاؤں میں ”کلہاڑا“ مارنے کا سامان کر رہے ہیں۔جس کے نتائج بہت بھیانک ہونگے۔
٭ گسٹ ہاوس…. تجارتی، دینی، طور پر جو وفود مدینہ آتے ان میں زیادہ تر غیر مسلم بھی ہوتے وہ مسجد نبوی ہی میں قیام کرتے۔ مباحثے، مناظرے ہوتے جو قائل ہوتا وہ ایمان لے آتا جو نہ ہوتا وہ واپس چلاجاتا اچھی یادوں کے ساتھ کوئی زور زبردستی نہ ہوتی۔پاکستان میں آج تک مساجد میں فرقہ واریت، مسلکی اختلافات سے آزاد نہیں کیا جاسکا کجا کہ غیر مسلم اس میں گھس کے مباحثہ کر سکے۔
٭ راستے : حضور ﷺ کے حکم پر مدینہ کی گلیاں ”دو لدے ہوئے اونٹوں“ کے برابر رکھی گئی یعنی بیک وقت دو ٹرک ّآمنے سامنے گزر سکیں۔نئے پاکستان میں آج بھی بہت سے شہر سڑکوں کے حوالے سے چودہ سو سال قبل کے ریاست مدینہ سے بہت پیچھے ہیں جہاں صرف نو مساجد کے لوگ آباد تھے۔ اور شہروں کو مقررہ حد اور آبادی سے بڑھنے کی اجازت نہ تھی۔ آج ہم غلاضت، گندگی، پولوشن، اور بے ہنگام اور بے ترتیب آبادی کے مسائل میں دنیا میں ایک نمایان مقام حاصل کر کے ریاست مدینہ کا نام لے کر توہین کا مرتکب نہیں ہورہے؟
٭ ریاست مدینہ… جعل سازی، نیم حکیم، ملاوٹ، جیسے حرکات پر سخت سزائیں تھیں آج نئے پاکستان میں سپرئم کورٹ نے بھی ملاوٹ والوں کے آگے گھٹنے ٹیک دئے۔ اور یہ ملاوٹ کوئی باہر سے اکر نہیں ہم سب حسب توقیق انجام دے رہے ہیں اور خود کونہ بدل کر ریاست کا نام بدلنے کا قسم کھا چکے ہیں چاہے ہمیں کسی بھی نام سے یاد کیا جائے۔
٭ا نصاف….. تک رسائی ریاست کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ ریاست مدینہ میں رسول ﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہؓ اور ایک عرب بدو کے لیے انصاف کے یکسان معیار تھے۔ کیاہمارے پاکستان بھی جناب عمران صاحب ان دو سالوں میں کیا کیا اسکینڈلز نہیں آئے خود آپ اور آپ کے پارٹی عہدداروں اور دوستوں کے۔ ان کے لیے انصاف ہونا تو دور کی بات جن مخالفین کو آپ نے مہینوں جیلوں میں ڈال رکھے تھے وہ….قومی خزانے کے بے دریغ استعمال کے بعد” ایرئل سرف“میں دھو کر قوم کے لیے بطور اعزاز پیش کیا جارہے ہیں اس کے باوجود آپ بضد ہیں کہ ریاست مدینہ بنارہے ہیں۔
٭ شراب، زنا، لواطت، قمار بازی اور بے حیائی کی بیخ کنی اسلامی ریاست کی زمہ داری تھی۔ آج میڈیا کی دنیا میں طوفان بدتمیزثقافت، اور جدت پسندی کے نام پر مسلط ہے کیا یہ سب کہیں اور سے لوگ آکے کر رہے ہیں یا ہمارئے ہی پاکستانی مسلمان ہیں جو اس میں ملوث ہیں کہ یہ سب ریاست کے ادارئے ہندوں۔ عیسائیوں، یہودیوں، چینیوں کے ہیں جو ”اسلام اور کفر“ میں تمیز کرنے سے قاصر ہیں۔ ہمارے تعلیمی ادراے کالج سکولز، مدرسے اور مساجد تک میں بچوں بچیوں پر جنسی تشدد کے واقعات ٹی وی میں ایسے انداز میں نئے پاکستان میں دیکھائے جارہے ہیں گویا ہم نے ایک اور ولڈکپ جیت لیا ہو۔ بلکہ ان قبیح وڈیوز کو عالمی ڈارک میڈیا میں چند کڑیوں کے عوض پھیلا کر امت مسلمہ کی سنہری دور اور غیرت کو…. نیٹ…. کے شوز اچھال کر نئے پاکستان کی بنیاد رکھی جارہی ہے۔ منشیات مختلف رنگ میں نسل نو کو ”راگ“ کرتے جارہی ہے اور ہم…….؟
٭ حکومت: جس میں اپنے آرمی چیف کے نوٹفکیشن بنانے کی صلاحیت نہ ہو۔ جو جھوٹ، تضادات، وعدہ خلافی، اور یو ٹرنوں کا مجموعہ عظیم ہوں وہ ریاست مدینہ کی دعویٰ داری کرئے تو اس خیال است و محال است و جنوں نہ کہیں تو اور کیا کہیں۔
٭ شفافیت….اصحاب صفہ میں سے ایک بچے کی موت واقع ہوئی تو میت کو غسل دیتے وقت اس کے کپڑوں سے ”دو دینار“ نکلے
تو حضور ﷺ نے سخت ناپسندگی اظہار فرمایا کہ یہ بچہ دو دینار کی طاقت رکھنے کے باوجود ”خیرات و صدقات“ کی مال پر پلتا رہا۔ آج ہمارے ملک میں زکواۃ۔ صدقات، وظیفہ، بے نظیری، مال مفت، ہنگامی حالات میں ایک کمبل، خیمہ۔ ترپال۔ دس کلو چاول، آٹا، اور سبیل کے لیے صاحب استطاعت اور صاحبان ثروت کا ختم نہ ہونے والا قطار بنا رہتا ہے۔اور ریاستی اہل کار ان کے منہ میں طمانچہ مارنے کی بجائے ان کے منہ میں غریب کا” نوالہ ٹھونس“ کر اور اہلیت کا جنازہ نکال کر ریاست مدینہ کا دعویٰ گر ہیں۔ خدا را… کام کیجیے اور ریاست مدینہ کی ”نقش قدم“ چلئے… ادب اور احترام کے ساتھ….. شتر بے مہار کی طر ح نہیں۔٭

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔