چترالی نرسں ! الزامات اور حقائق۔

………  (اقرارالدین خسرو) …………
اگرچہ جھوٹی بات کو  پھیلانا اور بےجا الزامات لگانا منافقوں کی نشانی ہے مگر بدقسمتی سے ہم چترالی بھی اس قسم کے کاموں میں کسی سے پیچھے نہیں۔ اسی طرح اس مرتبہ قصہ خوانی بازار سے گزرتے ہوے ایک دوست کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھا دوست نے کہا یار آپ لوگ جو لکھاری ہیں  اس سلسلے میں کچھ کرونا یہاں نرس لڑکیوں کی وجہ سے ہمارا سر شرم سے جُھک جاتا ہے۔ وہ یہاں جسم فروشی کے دھندے میں ملوث ہیں۔ میں نے کہا یار کونسے نرس کہاں والے؟ دوست نے کہا اکثر چترالی پھر میں نے  کہا ایک دو کا پتہ لگاو فون نمبر لے لو۔ پھر دوست نے کہا وہ یہ دھندہ چترالیوں کے ساتھ نہیں بلکہ پٹھانوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ میں نے کہا آپ کو کیسے پتہ چلا ؟ تو انہوں نے کہا یہاں سب ایسا کہتے ہیں سب کو پتہ ہے۔ اسی طرح ایک ہفتے میں چار پانچ دوستوں نے پشاور میں اس قسم کی باتیں کیں ہر بار میرے سوالات وہی تھے اور دوستوں کے جوابات بھی وہی۔ جس سے بھی ثبوت مانگو تو کہتا ہے یہاں سب کہتے ہیں۔ سب کے کہنے کا تو مجھے بھی اندازہ ہوگیا تھا مگر ثبوت چاہیے تھا۔ میں نے فیصلہ کیا اب اس چیز کا پتہ لگا کے رہونگا۔ تلاش کے دوران میری ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی جو جسم فروش لڑکیوں کیلیے دلال کا کام کیا کرتا ہے۔ میں نے خود کو گلگت سے تعلق رکھنے والا ایک بزنس مین ظاہر کیا اور جسم فروش لڑکی کی فرمائش کی اور ساتھ یہ بھی بتایا کہ آپ پیسے کی فکر نہ کریں مگر لڑکی صرف چترال کی ہونی چاہیے۔ انہوں نے معذرت کرتے ہوے کہا چترالیوں کی فرمائشیں اور بھی بہت آتی ہیں مگر آج تک کسی چترالی کال گرل یا جسم فروش کا پتہ نہیں۔ اس دوران دو اور دلالوں سے میری ملاقات ہوئی ان میں سے ایک سے میرا تعارف اسلام آباد کا رہائشی پولیس افیسر کے طور پر ہوا اور ساتھ یہ بھی بتایا کہ عام پولیس والوں کی طرح مت سمجھیے۔ پیسہ ڈبل دیدونگا اور انعام بھی مگر لڑکی چترالی ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا پندرہ سال سے اس دھندے سے منسلک ہوں۔ پاکستان کے تمام اضلاع کی لڑکیوں سے رابطہ یا ماضی میں رہا ہے یا اب ہے مگر آج تک مجھے کوئی چترالی لڑکی نہیں ملی۔
یہ سب کچھ کرنے کے بعد میں سوچنے لگا کہ ہم چترالی کیوں آپ اپنی عزت کو خاک میں ملانے کی  کوشش کر رہے ہیں۔ کچھ دوستوں نے بتایا کہ نرس سٹاف کے خلاف پروپیکنڈے کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ان کے  بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اکثر چترالیوں کے سامنے اپنی شناخت چھپانے کی کوشش کر تی ہیں۔ اور اخلاق کا مظاہرہ نہیں کرتیں۔ میں نے کہا چلو اس سلسلے میں بھی تحقیق کر لیتے ہیں۔ میں نے اسی شام نوجوان شاعر برادرم منظور الہٰی سنگال کو ساتھ لیے بھیس بدل کر ایل آر ایچ گیا مگر کوئی چترالی نرس نہ ملی۔ دوسرے روز منظور کو ہی ساتھ لیے خیبر ٹیچنگ ہسپتال گیے ۔ ایک وارڈ کے ساتھ کاونٹر پہ ایک نرس بیٹھی ہوئی تھی۔ میں نے کہا یہ مجھے چترالی لگتی ہے ہم اس کے پاس گیے میں نے پوچھا ً بہن آپ چترالی  ہیں ؟ انہون نے جواب دیا ہاں، پھر میں نے اسے جھوٹ موٹ ایک مریض کے بارے میں بتایا اسے ڈائلاسز کروانا ہے وغیرہ وغیرہ۔ انہوں نے ہمیں طریقہ کار بتائے اور اچھے طریقے سے ہماری معاونت کیلیے راضی ہوگئی۔ پھر ہم نے انہیں بتایا نہیں میری بہن اصل میں ہمارا کوئی کام نہیں بس ہم صرف یہ دیکھنا چاہ رہے تھے کہ آپ چترالیوں کی خدمت کرتے ہیں یا نہیں۔ اور لوگوں کی رائے آپکے بارے میں مختلف ہے آپ ہمارے ساتھ کافی اچھے طریقے سے پیش آئے آپ کا شکریہ۔ پھر ہم نے کہا ایک اور بندے کو چیک کرلیتے ہیں ۔ دوسرے وارڈ میں گیے وہاں  مستوج سے تعلق رکھنے والی ایک ٹریننگ کرنے والی سٹوڈنٹس نرس تھی ۔ ان کے ساتھ مل کے بھی ہم نے پہلا سوال یہی کیا کہ آپ چترالی ہو؟ جواب دیا ہاں۔ پھر ہم نے اس سے بھی مدد مانگنے کی کوشش کی وہ بھی بہت مہذب طریقے سے ہمارے ساتھ پیش آئی۔ ہم نے اسے بتایا آپ کا بے حد شکریہ ہم صرف یہی دیکھنے آئے تھے کہ چترالیوں کے ساتھ آپ کا سلوک کیسا ہے؟ میں دیکھ رہا تھا وہ بچی ہمارے پاس آنے کے بعد خود کو چترالی ظاہر کرکے بھی ڈری اور سہمی ہوئی تھی۔ عموما ایک نوجوان لڑکی انجان ماحول میں کسی اپنے سے مل کر مطمئن نظر آتی ہے مگر وہ ایسی نہیں بلکہ سہمی ہوئی تھی۔ پھر میں نے اندازہ لگایا کہ پہلا قصور یہاں آنے والے چترالی نوجوان لڑکوں کا ہے وہ انہیں بہن سمجھ کر نہیں آتے وہ شکاری بن کے آتے ہیں تو لڑکیاں بھی ان سے خود کو بچانے کی کوشش کرتی ہیں۔
اسلیے‌ تمام چترالی دوستوں سے میری گذارش ہے کہ ہم کیوں اپنے ہی چترالی بہنوں پہ جھوٹے الزامات لگا کے پورے چترال کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ پیشہ انتہائی مقدس پیشہ ہے اس میں انسانی جان بچانے کی کوشش ہوتی ہے رب دوجہاں کا فرماں ہے کہ جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی” ۔ اسلیے یہ پیشہ بہت مقدس ہے مانا کہ اچھے برے لوگ ان میں بھی ہونگے مگر سب برے نہیں ۔ وہ چترال کی عزت ہیں گھروں سے سینکڑوں میل دور جاکے انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں اور گھر والوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ ہم اگر انہیں بہن کی نظر سے دیکھنگے تو ان کا سلوک بھی ہمارے ساتھ اچھا ہی ہوگا۔ لہذا سب سے میری گذارش ہے کہ ان پر بے جا الزامات لگانا چھوڑ دے کیونکہ وہ بھی مائیں بہنیں اور بیٹیاں ہیں چترال کی ۔ ہاں اگر کسی کے پاس ٹھوس ثبوت ہیں انھیں سامنے لاکر انھیں بے نقاب کیا جائے۔ بصورت دیگر اس مقدس پیشے کو بدنام کرنا اچھی بات نہیں۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔