کورونا وائرس کی وبا سارس سے بڑی مگر کم مہلک

چترال ایکسپریس)دنیا میں کورونا وائرس کی وبا 2003 میں سارس وائرس سے پھیلنے والی وبا سے بڑی ہے اور اس کے متاثرین کی تعداد بھی سارس کے مقابلے میں زیادہ ہو چکی ہے، تاہم کرونا وائرس کم مہلک ہے۔

سانس کی تکلیف پیدا کرنے والی بیماری سارس 2003 میں چین میں پھیلی تھی اور اس کے تقریباً 8100 کیسز سامنے آئے تھے اور اس سے 774 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

مگر اس نئے کورونا وائرس کی وجہ سے اب تک تقریباً 10 ہزار لوگ متاثر ہوئے ہیں جو چین میں دسمبر میں سامنے آیا تھا۔

کرونا وائرس سے اب تک 213 ہلاکتیں ہوئی ہیں جو کہ تمام کی تمام چین میں ہوئیں، تاہم یہ سارس کی وجہ سے ہونے والی 774 ہلاکتوں سے کہیں کم ہیں۔

جمعرات کو عالمی ادارہ صحت نے اس وبا کو ایک عالمی ہنگامی صورتحال قرار دیا۔ ادارے کا کہنا تھا کہ چین کے باہر اب تک 98 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں مگر کوئی ہلاکت نہیں ہوئی ہے۔

مگر جمعے کو برطانیہ میں کورونا وائرس کے دو کیسز پہلی مرتبہ رپورٹ ہوئے ہیں۔

زیادہ تر بین الاقوامی کیسز ان لوگوں میں سامنے آ رہے ہیں جو چین کے ہوبائی صوبے میں ووہان کے شہر کا سفر کر چکے ہیں جہاں سے اس وائرس کی ابتدا ہوئی تھی۔

مگر جرمنی، جاپان، ویتنام اور امریکہ میں آٹھ کیسز میں متاثرین اس علاقے کا سفر کرنے والے افراد سے متاثر ہوئے ہیں۔

کورونا وائرس کا سارس سے موازنہ؟

چین میں 2003 میں پھیلنے والی سارس بیماری بھی کورونا وائرس کی ایک قسم تھی جس نے 26 ممالک کو متاثر کیا تھا۔

یہ نیا وائرس اب تک کم ممالک میں پھیلا ہے، اور بھلے ہی اس سے بین الاقوامی طور پر کہیں زیادہ لوگ متاثر ہوئے ہیں، مگر اس کی وجہ سے کافی کم اموات ہوئی ہیں۔

بدھ کو چین میں اس کے تصدیق شدہ کیسز کی تعداد سارس کی وجہ سے سامنے آنے والے کیسز سے تجاوز کر گئی تھی۔

اندازہ ہے کہ سارس کی وجہ سے تقریباً 30 ارب ڈالر (22 ارب پاؤنڈ) کا نقصان ہوا تھا، مگر ماہرینِ اقتصادیات کا کہنا ہے کہ نیا کورونا وائرس عالمی معیشت پر اس سے بھی زیادہ خطرناک اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ کئی بین الاقوامی ٹیکنالوجی کمپنیوں، کار کمپنیوں اور ریٹیل سٹورز نے چین میں اپنے کاروبار عارضی طور پر بند کر دیے ہیں۔

چین پر عالمی ادارہ صحت نے سارس کی وبا کی شدت کو چھپانے پر بھی تنقید کی تھی مگر اب تازہ ترین وائرس کے خلاف سخت اقدامات کرنے پر اس کی تعریف بھی کی جا رہی ہے۔ چین نے کئی شہروں میں اپنے کروڑوں شہریوں کو باقاعدہ قرنطینے میں ڈال دیا ہے۔

کورونا وائرس، چین، سارس، ہانگ کانگہانگ کانگ میں شہری ایک فارمیسی کے باہر ماسک خریدنے کے لیے قطار بنائے کھڑے ہیں

نشاندہی بھی مشکل، روکنا بھی مشکل

تجزیہ جیمز گیلاہر

بی بی سی کے طب و سائنس کے نامہ نگار

آخر اس وبا کو روکنا سارس سے زیادہ مشکل کیوں ہے؟

جواب کا تعلق چین سے نہیں ہے۔ اس نئے وائرس کے خلاف چین کے ردِعمل کی برق رفتاری اور وسعت کو بے مثال قرار دیا جا رہا ہے۔ فرق اس وائرس کے انسانی جسم کے اندر کام کرنے کا طریقہ کار ہے۔

سارس ایک خوفناک انفیکشن تھا جو پوشیدہ نہیں رہتا تھا۔ مریض صرف تب ہی متاثر ہوتے تھے جب ان میں اس کی علامات ظاہر ہوتی تھیں۔ اس کی وجہ سے بیماروں کو الگ کرنا اور کسی بھی ممکنہ طور پر متاثر شخص کو قرنطینے میں ڈالنا آسان تھا۔

مگر اس نئے وائرس 2019-nCov کو تلاش کرنا بھی مشکل ہے اس لیے اسے روکنا بھی مشکل ہے۔

وائرس کے نکتہ نظر سے دیکھیں، تو ارتقائی اعتبار سے اس کی بقا کی حکمتِ عملی سارس سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔

اندازہ یہ ہے کہ صرف پانچ میں سے ایک کیس میں ہی شدید علامات ظاہر ہو رہی ہیں، اس لیے بجائے اس کے کہ بیمار لوگ خود ہسپتال آئیں، آپ کو خود باہر جا کر انھیں ڈھونڈنا پڑتا ہے۔

اور اب ایسے تفصیلی کیسز سامنے آ رہے ہیں جس میں پایا گیا ہے کہ لوگوں میں علامات ظاہر بھی نہیں ہو پاتیں کہ وہ وائرس پھیلنے کا سبب بننے لگتے ہیں۔

عام طور پر ہماری توجہ صرف اس بات پر رہتی ہے کہ کوئی وائرس کتنا ہلاکت خیز ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ وائرس کے پھیلنے کی صلاحیت مل کر اس کے خطرے کی حقیقی نوعیت بتاتی ہے۔

چین اس سے کیسے نمٹ رہا ہے؟

تبت میں ایک تصدیق شدہ کیس کا مطلب ہے کہ یہ وائرس چین میں تقریباً ہر خطے میں پہنچ چکا ہے۔

چین کا وسطی صوبہ ہوبائی، جہاں تقریباً تمام ہلاکتیں ہوئی ہیں، وہ لاک ڈاؤن کی صورتحال میں ہے۔ تقریباً چھ کروڑ کی آبادی والے اس صوبے میں ہی ووہان شہر ہے جہاں سے اس وائرس کی ابتدا ہوئی تھی۔

اس شہر کو تقریباً سیل کر دیا گیا ہے اور وائرس کو پھیلاؤ سے روکنے کے لیے کئی ٹرانسپورٹ پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ ہوبائی جانے والے لوگوں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ گھر سے دفتری کام کریں۔

چین کا کہنا ہے کہ وہ بیرونِ ملک مقیم ہوبائی کے شہریوں کو ‘جتنا جلد ممکن ہو سکے’ واپس لانے کے لیے چارٹرڈ طیارے بھیجے گا۔ چینی وزارتِ خارجہ کے ایک ترجمان کے مطابق یہ ان ‘عملی مشکلات’ کی وجہ سے کیا جا رہا ہے جس کا سامنا چینی شہریوں کو بیرونِ ملک کرنا پڑ رہا ہے۔

یہ وائرس دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ممالک اپنے شہریوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ چین کا غیر ضروری سفر نہ کریں۔

کورونا وائرس، چین، سارس، ہانگ کانگاندازہ یہ ہے کہ صرف پانچ میں سے ایک کیس میں ہی شدید علامات ظاہر ہو رہی ہیں

عالمی ردِ عمل کیا ہے؟

ووہان سے غیر ملکی شہریوں کا سینکڑوں کی تعداد میں رضاکارانہ انخلا جاری ہے۔

برطانیہ، آسٹریلیا، جنوبی کوریا، سنگاپور اور نیوزی لینڈ ممکنہ طور پر ایسے تمام شہریوں کو دو ہفتوں کے لیے قرنطینے میں ڈال دیں گے تاکہ ان پر علامات کے لیے نظر رکھی جا سکے اور مرض کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔

آسٹریلیا کا منصوبہ ہے کہ وہ چین سے نکالے گئے تمام شہریوں کو اپنے مرکزی خطے سے 2000 کلومیٹر دور کرسمس آئیلینڈ نامی ایک جزیرے پر قرنطینے میں رکھا گا۔

یہاں انھیں ایک حراستی مرکز میں رکھا جائے گا جہاں پر عموماً پناہ کے متلاشیوں کو رکھا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ

  • روس نے کہا ہے کہ وائرس کی تصدیق ہونے کے بعد دو چینی شہریوں کو قرنطینے میں رکھا گیا ہے۔
  • سنگاپور نے چین سے آنے والے لوگوں کے لیے اپنی سرحدیں بند کر دی ہیں۔
  • اٹلی نے روم میں دو چینی سیاحوں میں کورونا وائرس کی تصدیق ہونے کے بعد چھ ماہ کی ہنگامی حالت نافذ کر دی ہے۔
  • تھائی لینڈ میں انسان سے انسان میں وائرس کی منتقلی کے پہلے کیس کی تصدیق ہوچکی ہے۔
  • منگولیا نے دو مارچ تک چین سے لوگوں کی آمد پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس کے علاوہ اس نے اپنے شہریوں کو بھی چین کا سفر کرنے سے روک دیا ہے۔
  • امریکہ میں شکاگو کے طبی حکام نے انسان سے انسان میں وائرس کی منتقلی کے پہلے امریکی کیس کی تصدیق کر دی ہے۔
  • روس نے مشرق بعید میں چین کے ساتھ اپنی 4300 کلومیٹر طویل سرحد بند کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
  • جاپان نے متعدی امراض کے خطرے کی سطح کو چین کے لیے بڑھا دیا ہے۔
  • فرانس کے تقریباً 250 شہریوں کو ووہان سے نکالا گیا ہے۔
  • انڈیا نے وائرس کے اپنے پہلے کیس کی تصدیق کی ہے۔ یہ جنوبی ریاست کیرالہ کے ایک ووہان میں زیرِ تعلیم طالبِ علم میں سامنے آیا ہے۔
  • اسرائیل نے چین کے ساتھ تمام پروازیں منسوخ کر دی ہیں۔
  • شمالی کوریا میں برطانوی سفیر نے بتایا ہے کہ شمالی کوریا نے چین جانے اور وہاں سے آنے والی تمام پروازیں اور ٹرینیں معطل کر دی ہیں۔
  • بشکریہ بی بی سی اردو
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔