#CoronaVirus: چین سے پاکستان آنے والوں کی نگرانی کیسے کی جا رہی ہے؟

چترال ایکسپریس)۔۔۔۔پاکستان کی طرف سے فضائی آپریشن کی ابتدائی طور پر بندش کے بعد چین کے ساتھ فضائی رابطہ بحال ہو گیا ہے جس کے بعد مسافروں کی چین سے پاکستان آمد کا سلسلہ جاری ہے۔

کورونا وائرس کے خطرے کے پیشِ نظر پاکستان میں داخل ہونے والے افراد کی سخت نگرانی ضروری ہے۔

صوبہ پنجاب میں کورونا وائرس کی نگرانی کرنے والے یونٹ کی رپورٹ کے مطابق اتوار تک چین سے پاکستان کے لاہور ایئرپورٹ پر 40 افراد پہنچے ہیں۔

ان میں چار افراد کا تعلق فیصل آباد، دو کا جہلم، دو کا بھکر اور ایک شخص کا تعلق میانوالی سے ہے۔ اس کے علاوہ آٹھ افراد کا تعلق صوبہ خیبرپختونخوا سے جبکہ چھ افراد کا تعلق اسلام آباد سے ہے۔ باقی 21 مسافروں کی معلومات اکٹھی کرنے کا عمل جاری ہے۔

پاکستان میں چین کے سفیر یاؤ ژنگ نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا ہے کہ پیر کو 12 چینی باشندے پاکستان میں داخل ہوئے ہیں۔ نگرانی یونٹ کے مطابق پاکستان کے تمام ہوائی اڈوں پر اتوار کو 61 پروازوں کے ذریعے آنے والے 12596 مسافر پاکستان پہنچے جنھیں بخار کے لیے سکرین کیا گیا۔

کورونا وائرس سے متعلق نگرانی یونٹ کے مطابق پاکستان میں داخلی سطح پر بھی 51 ایسے کیمپوں اور کالونیوں کا معائنہ کیا گیا جہاں پر چینی باشندے رہائش پذیر ہیں۔ ان کیمپوں میں 2777 چینی باشندے موجود تھے جن میں سے 1127 کی جانچ پڑتال کی گئی۔

ان میں 194 چینی باشندے ایسے تھے جو گذشتہ 14 روز میں چین کا سفر کر چکے تھے۔ رپورٹ کے مطابق 16 چینی باشندوں کو زیرِ نگرانی رکھا گیا ہے۔

چین سے پاکستان آنے والے مسافروں اور دیگر تجارتی سامان کی آمد کے دوران پاکستان ایسے کیا اقدامات لے رہا ہے کہ کورونا وائرس کے خلاف پاکستانی شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے؟

وزیرِ اعظم پاکستان کے مشیر برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ پاکستان کے تمام ہوائی اڈوں پر مسافروں کی سکریننگ کرنے کے انتظامات موجود ہیں۔

’میں نے خود جا کر نظام کا جائزہ لیا ہے اور ابھی تک ہمیں چین سے آنے والے کسی مسافر میں کوئی بھی مشتبہ کیس نظر نہیں آیا۔‘

ایئر پورٹس پر جانچ پڑتال کے کیا انتظامات ہیں؟

کورونا وائرستصویر کے کاپی رائٹMINISTRY OF HEALTH

کورونا وائرس کے خطرے سے نمٹنے کے لیے جو ایس او پیز یا بنیادی اصول ہوائی اڈوں کے لیے ترتیب دیے گئے ہیں ان میں پہلے قدم پر جہاز کے اترنے کے ساتھ ہی جہاز کا عملہ مسافروں کو ایک فارم بھرنے کی ہدایات دے گا۔

اس فارم میں انھیں بتانا ہوتا ہے کہ وہ کس علاقے سے کس طرف سفر کر رہے تھے اور کس علاقے سے پاکستان آ رہے ہیں۔

جہاز سے اترنے کے بعد ان کا پہلا رابطہ ’تھرمل سکینر‘ سے ہوتا ہے۔ اس سکینر کے نتائج کو قرنطینے کے ماہرین جانچتے ہیں۔ جس مسافر میں بخار کی علامات ہوں اس کو امیگریشن کی طرف نہیں جانے دیا جاتا۔

ایسے مسافروں کو ڈیوٹی پر موجود میڈیکل آفیسر کے پاس بھیج دیا جاتا ہے۔ باقی مسافر اگلے مرحلے تک پہنچ جاتے ہیں۔

ایس او پیز کے مطابق ایئرپورٹ پر آنے والے ایسے چینی باشندے جن میں کوئی علامات موجود نہ ہوں ان کو 14 روز تک نگرانی میں رکھا جائے گا۔ ’ہر 48 گھنٹے بعد نگرانی کرنے والی ٹیم ان سے رابطہ کر کے تازہ ترین صورتحال معلوم کرے گی۔‘

مشتبہ افراد کو کیسے سنبھالا جاتا ہے؟

ایس او پیز کے مطابق اگر کسی شخص میں عالمی ادارہ صحت کے بتائے گئے اصولوں کے مطابق علامات ظاہر ہوں اور اس نے چین یا متاثرہ علاقوں کا سفر کیا ہو تو اس پر تشخیص کے طریقہ کار کا اطلاق ہو گا۔

کورونا وائرس

اس صورت میں اسے میڈیکل آفیسر کے پاس لے جایا جاتا ہے۔ سب سے پہلے اسے ایک ماسک دیا جائے گا اور اس کی اور اس کے ساتھ سفر کرنے والے دیگر عزیز و اقارب کی معلومات اکٹھی کی جائیں گی۔

اس کے سامان اور عزیز و اقارب کو محفوظ بنانے کے بعد اس مسافر کو خاص طور پر تیار کی گئی ایمبولینس تک پہنچایا جائے گا جس کے ذریعے اسے ہسپتال میں خاص طور پر قائم مخصوص وارڈ میں منتقل کر دیا جائے گا۔

کیا پاکستان میں قرنطینے کی سہولت موجود ہے؟

صوبہ پنجاب کے سیکریٹری بنیادی صحت کیپٹن (ر) محمد عثمان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں تاحال مشتبہ افراد کو قرنطینے میں رکھنے کی سہولیات میسر نہیں ہیں۔

قرنطینے میں رکھنا وہ عمل ہے جس کے ذریعے ایسے مشتبہ افراد کو عام افراد سے الگ کیا جاتا ہے جو کسی وبائی بیماری کے علاقے میں جا چکے ہوں یا اس سے ان کا آمنا سامنا ہو چکا ہو۔

ایسے افراد کو الگ کرنے کے بعد ان کی نقل و حمل کو روک لیا جاتا ہے تاکہ دیکھا جا سکے کہ ان میں بیماری کے اثرات تو ظاہر نہیں ہوئے۔ ایسا بیشر ممالک میں ایئر پورٹ یا ملک میں داخلے کے مقام پر ہی کیا جاتا ہے۔

کیپٹن (ر) محمد عثمان کے مطابق ایسے افراد جن کی کورونا وائرس سے متاثرہ علاقوں میں سفر کرنے کی تاریخ ہو ان کی تھرمل سکینرز کے ذریعے سکریننگ کی جا رہی ہے۔ ’اگر ضرورت ہو تو میڈیکل کیمپ لگایا جاتا ہے۔ مشکوک افراد کو ہسپتال لایا جا رہا ہے۔‘

‘چین میں بیماری سے پاک 14 روز گزارنا لازمی’

ڈاکٹر ظفر مرزا نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ چین کے اندر اس امر کو یقینی بنایا گیا ہے کہ پاکستان یا دوسرے ممالک کو سفر کرنے والے افراد سفر سے قبل کم از کم 14 روز کا وقت زیرِ نگرانی گزاریں۔

ان کے مطابق یہ قرنطینے کرنا ہی ایک طریقہ ہے۔ ’اس ایک قدم سے ہم نے ایک ایسی رکاوٹ قائم کر دی ہے کہ جس سے ہم، ہمارے بچے اور پاکستان کے لوگ بڑی حد تک وائرس سے محفوظ ہو چکے ہیں۔‘

پاکستان میں چینی سفیر یاؤ ژنگ کے مطابق چین کے اندر متاثرہ صوبہ ہوبائی کے شہر ووہان کے رہائشیوں کو فی الوقت مقامی طور پر بھی سفر کی اجازت نہیں دی جا رہی اور پاکستان کے شہری بھی چین کے اندر متاثرہ علاقے کے علاوہ ہر جگہ جا سکتے ہیں۔

کورونا وائرس

کیا پاکستان میں وائرس کی تشخیص ممکن ہے؟

وفاقی مشیرِ صحت کے مطابق پاکستان کو مختلف ذرائع سے تشخیص کرنے والی کٹس مل چکی ہیں جن کے بعد کسی شخص میں وائرس کی موجودگی کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔

’ہم نے ان نئی کٹس کے ذریعے ایک مرتبہ پھر پاکستان میں موجود سات مشتبہ افراد کا معائنہ کیا ہے اور انتہائی خوشی کی بات یہ ہے کہ ان میں کسی میں بھی وائرس کی تشخیص نہیں ہوئی۔‘

اس سے قبل ایسے افراد جن میں وائرس کی علامات پائے جانے کا خدشہ ہوتا تھا ان کے خون کے نمونے اسلام آباد میں قومی ادارہ برائے صحت کو بھجوائے جاتے تھے۔

کس قسم کے ماسک موزوں ہوتے ہیں؟

اسلام آباد کے قومی ادارہ برائے صحت کے ڈاکٹر سلمان احمد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے جن ماسکس کا استعمال زیادہ موزوں ہے وہ مخصوص قسم کے ہیں اور انھیں این 95 کہا جاتا ہے۔

’بیکٹیریا یا وائرس کیونکہ چھوٹے ہوتے ہیں اس لیے ان کو اس حساب سے تیار کیا جاتا ہے۔‘ تاہم ان کا کہنا تھا کہ بازار میں اگر ایسے ماسک دستیاب نہ بھی ہوں تو عام سرجیکل ماسک بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں جو کافی حد تک حفاظت فراہم کرتے ہیں۔

ڈاکٹر سلمان کا کہنا تھا کہ ماسک پہننے اور دیگر تمام تر حفاظتی تدابیر لینے کے بعد لوگ خود کو بڑی حد تک بیماری سے محفوظ بنا سکتے ہیں۔

بشکریہ بی بی سی اردو۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔