سابق وزیرداخلہ کے انکشافات

………محمد شریف شکیب……..

سابق وزیر داخلہ رحمان ملک نے انکشاف کیا ہے کہ اس وقت دنیا میں ایڈز اور کرونا سے زیادہ خطرناک وائرس وار پوائزن موجود ہے۔ اسرائیل تقریباً دو کلو وار پوائزن پیدا کرتا ہے یا یہ امریکہ کے پاس موجود ہے، کیپسول کی صورت میں وار پوائزن کواگر کوئی نگل لے تو اس کو دل کا دورہ پڑتا ہے اوروہ مرجاتا ہے۔سابق وزیرداخلہ کا کہنا ہے کہ میں نے اس وائرس کی شناخت اس وقت کی تھی جب شاہنواز بھٹو کووار پوائزن کھلاکر قتل کیا گیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ میرا اندازہ ہے کہ کروناوائرس انسان کا خود تخلیق کردہ ہے اور اس کو مختلف جگہوں پر داخل کیا گیاجہاں سے وہ تیزی سے پھیل رہا ہے میری پیشگوئی ہے کہ اس سے سب سے زیادہ نقصان چین کے عوام،ان کی برآمدت، کاروبار اور معیشت کوپہنچے گا۔ مجھے یہ نہیں پتا کہ یہ وائرس کس نے بنایا ہے تاہم اس وائرس میں دنیا کو جزوی طور پر مفلوج کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔پیپلز پارٹی کے رہنما منظور وسان کی طرح رحمان ملک بھی پیش گوئیاں اور انکشافات کرنے میں ملک گیر شہرت حاصل کرنے لگے ہیں۔کبھی نادانستہ اور کبھی دانستہ طور پر بیان جاری کرکے اپنے اوپر تنقید کی راہیں کھولنے کا انہیں جنون کی حد تک شوق ہے۔وہ اس بات کے قائل ہیں کہ بدنام اگر ہوں گے توکیا نام نہ ہوگا؟پچھلے دنوں سینٹ کے اجلاس میں انہوں نے مردوں اور خواتین کو وراثت میں برابر کا حصہ دینے کی تجویز پیش کی جس پر حکومت اور اپوزیشن دونوں نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا۔سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے چھوٹے صاحبزادے شاہنواز بھٹو کی پراسرار ہلاکت کا واقعہ 18جولائی1985کا ہے وہ فرانس کے شہر نائس کے ایک ہوٹل میں مردہ پائے گئے تھے۔ ان کی بیوی ریحانہ پر الزام لگایاجاتا ہے کہ انہوں نے سازش کے تحت اپنے شوہر شاہنوازبھٹو کو زہر دے کر ماردیا۔ اس واقعے کے 35سال بعد رحمان ملک نے شاہنواز کو وار پوائزن نامی وائرس سے قتل کئے جانے کا انکشاف کیا ہے۔چین کے شہر ووہان سے پھیلنے والے کرونا وائرس کے بارے میں بھی رحمان ملک نے انکشاف کیا ہے کہ وہ انسانوں (ممکنہ طور پر امریکیوں) کا تیارکردہ وائرس ہے اور اسے ایک منظم سازش کے تحت چین میں پھیلایاگیا ہے تاکہ چین کی معیشت کو تباہ کرکے اسے دنیا میں تنہا کیا جاسکے۔ جبکہ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس مختلف جانوروں اور پرندوں کی آلائشات سے پیدا ہوتا ہے۔ سابق وزیرداخلہ بھی ان چند شخصیات میں سے ہیں جن پر خواب میں انکشافات کا نزول ہوتا ہے۔ایسے لوگ اپنی محیرالعقول باتوں کی وجہ سے محفلوں کی جان ہوتے ہیں ہمارے گاوں میں بھی ایک ایسا ہی بنڈلی ہوا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ وہ کہنے لگے کہ 71کی جنگ میں وہ پاک فوج کی طرف سے اگلے مورچوں پر تعینات تھا۔ رات کی تاریکی میں دشمن کے علاقے میں آگے بڑھتا گیا۔ طلوع سحر کے وقت دیکھا تو امرتسر پہنچ چکا تھا۔ تھوڑی سی روشنی پھیلی تو بھارتی فوج کی نقل و حرکت شروع ہوگئی۔ان کے پاس بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ وہ سڑک کے کنارے ایک درخت پر چڑھ گیا۔ درخت کی ایک شاخ سے دوسرے درخت کی شاخ پھر تیسرے، چوتھے، پانچویں درخت پر چھلانگ لگاتا رہا۔ یہاں تک کہ ہزاروں درختوں کے اوپرسے بندر کی طرح اچھلتا کودتا پاکستان کی حدود میں داخل ہوگیا۔ محفل میں بیٹھے ایک شخص نے حیرت سے پوچھ لیا کہ کیا اس زمانے میں امرتسرسے لاہور تک سڑک کے کنارے اتنے گھنے درخت لگے تھے۔ تو وہ صاحب کہنے لگے کہ اس بات پر تو وہ خود حیران ہیں اور اب تک سوچ رہے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہوا؟۔رحمان ملک کی اردو اچھی خاصی ہے۔ البتہ عربی کا تلفظ ان سے کبھی کبھار آگے پیچھے ہوتا ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ وہ پنتیس سال پہلے رونما ہونے واقعے کو انکشاف کیوں سمجھتے ہیں شاید انہیں انکشاف کے معنی سمجھنے میں کچھ غلط فہمی ہوئی ہے۔ظاہر ہے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے چین کو سیاسی، معاشی، معاشرتی اور سفارتی سطح پر بہت نقصان ہوا ہے اور اس کے بارے میں بچہ بچہ جانتا ہے۔ اس لئے سابق وزیرداخلہ کو وائرس سے چین کو پہنچنے والے نقصانات کے بارے میں پیش گوئی کرنے کی بھی چنداں ضرورت نہیں تھی۔لگتا ہے کہ وہ جان بوجھ کر ایسی بات کہہ دیتے ہیں تاکہ لوگوں کو ان پر نکتہ چینی کرنے کا موقع مل جائے۔ہمارے ایک دوست کا مشہور قول ہے کہ جو انسان آپ کو حد سے زیادہ پسند ہو۔آپ چاہیں گے کہ محفل میں اسی کا ذکر چلے۔ اگر کسی نے اس کا تذکرہ نہیں کیا۔ تو محبوب خود ہی اس کی برائی کرنے کی آڑ میں اس کا ذکر چھیڑ دیتا ہے تاکہ محفل ان کے ذکر سے خالی نہ ہو۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔