درحقیقت (آج کی صبح امت مسلمہ کے نام)

……تحریر۔ ڈاکٹر محمد حکیم……..

الحمد للّٰہ صدبار کہ اے خدایا تو نے ھمیں مسلمان پیدا فرمایا۔اور قرآن جیسی عظیم آسمانی کتاب اور حضرت محمدؐ جیسے رحمت اللعٰمین نبیؐ کی ذات اقدس مرحمت فرمائے۔ھم دنیا کے سب سے معززترین امت ھونے پر فخر محسوس کرتے ھیں اور آپ سے التجاءاور دعا کرتے ھیں۔ کہ آپ ھمیں قرآن پاک اور سنت نبویؐ پر مکمل عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔کیونکہ ان پر مکمل عمل پیرا ھونے پر دنیا اور آخرت کی مکمل کامیابی کی ضمانت پوشیدہ ھے۔
آجکل دنیا اپنے دور کے خوفناک مرحلے سے گزررہی ھے۔اس فرش و اررض پر رھنے والے تمام لوگ جومذھب اسلام سے تعلق رکھتے ھوں یا کہ کسی اور مذھب سے تعلق رکھتے ھوں۔ ساری انسانیت تاریخ کے پریشن کن مرحلہ سے گزررہی ھے۔ میرا مطلب یہ ھے کہ ایک جان لیوا بیماری جو کہ دنیا کی دوسری بڑی ظاھری اسباب سے مزین اپنی طاقت پر ناز کرنے والی،سائنسی ترقی کرکے چاند پر سفر کرنے کے دعویدار ، معاشی لحاظ سے دنیا کی دوسری طاقتورترین قوم، دن رات بچے سے لیکر بوڑھے تک اور عورتوں سے لیکر مردوں تک محنت کرنے والی طاقت ور قوم پر خفیہ طور پر حملہ آور ھوئی ھے۔اور دنوں کے گنتی پر معیشت کو کمزور کی ھوئی ھے ۔ اور وہ قوم جو صرف ایک بات کو نہیں مانتی تھی کہ اس کائنات کےنظام کو چلانے والی اللّٰہ کی ذات ھے اور اس کےساتھ کوئی شریک نہیں ھے آسمانوں میں اور نہ زمیں پر۔لیکن وہ کہتی تھی جو کچھ ھوتا ھے وہ سوائے انسان کی محنت اور کوششوں کی بدولت ھوتا ھے اس کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ھوتا ھے کے رٹ لگانے والی ۔ اس بنیاد پر اپنے عقل سلیم لگاکر ترقی کے ان منازل کو چھوتی گئی کہ کبھی بھی گمان غلطی سے یہ خیال تک نہیں آیا کہ اس نظام کائنات کو بھی چلانے والی ذات بھی کوئی ھے۔ روزافزون سائنسی ترقی نے اس کے دل و دماغ کے روحانی پہلؤں کو خالق حقیقی کی محبت حقیقی سے ایسے محروم کردی۔ کہ آج یہ قوم چہرے پر ماسک لگاکر برقع کی افادیت اور چھرے کو دھو کر وضو کے لازوال حکمتوں کو اعتراف کرنےپر مجبور ھوچکی ھے۔
محترم قارئین !
آج میں نے یہ عنوان اس لئے چننا ھوا ھے۔کہ آج کے دور میں پاکستان کے جدت پسند اور آزاد خیال عناصر جو کہ دن رات بیچارے دیندار اور روحانی عبادتوں کے سہارے لیکراللّٰہ پاک کی خوشنودی حاصل کرنے والوں کو انگشت نمائی کرکے کوئی کثر باقی نہیں چھوڑتے تھے کہ اس نماز روزہ ،تہجد اور داڑھی سے کیا ھوتا ھے جبکہ لوگ چاند پر پہنچ گئے۔ اب کون سمجائے جدت پسندی سے لبریز ان لبرل لوگوں کو کہ اے انسان جس چاند پر پہنچنے کے لئے لوگ اربوں ڈالر خرچ کر رھے ھیں ۔اس چاند پر ھمارے پیارے نبی ؐ آج سے ۱۴ سو سال پہلے تشریف لے جا چکے ہیں ۔ اور اس کے ذرے ذرے سے باخبر ھیں۔ بناء برین بحیثت مسلمان ھمیں بخوبی معلوم ھونا چاھئے کہ جو لوگ بذرئعہ اسباب آج اس چاند تک رسائی کی کوشیشیں دن رات کررھے ھیں۔ کیا اس نبی پاکؐ سے نا اعوذ با اللّٰہ بہتر ھونگے۔جو آپ ؐ آج سے ۱۴ سو سال پہلے اس چاند پر سے ھوتے ھوئے ساتوں آسمانوں تک کا سفر صرف چند گھٹوں میں طے کیا ۔کیا آپؐ کی بات بہتر ھوگی یا ان جدید سائسدانوں کی جنہوں نے اپنے عقل کے وہ سارے گھوڑھے دوڑائے مگر دنیا میں بہت ایسی بیما ریان پائی جاتی ھیں جنکا علاج اب بھی ان جیسے سائنسدانوں کے پاس موجود نہیں ھے۔ سوائے سنتوں پر اکتفاء کرنے کے کہ انسان ان جان لیوا بیماریوں سے بچ جائے۔
آئیں کہ موازنہ کرتے ھیں مغربی اور مشرقی یعنی نبویؐ کے طور طریقون کا کہ اچانک رونما ھونے والے ایسے حالات کا کس طرح مقابلہ کیا جاسکتا ھے۔کہ جب ساری دنیا ایک وبائی مرض میں مبتلا ھوچکی ھو۔ اور ایسے دلدل میں ساری انسانیت پھنس چکی ھو جس سے نجات کا کوئی سہارا نظر نہ آجائے۔
میرے پیارے نبیؐ کے صرف ایک ھی سنت اور طورطریقہ کو لیکر میں آپ کو کورونہ وئرس سے نجات کا طریقہ بتا دیتا ھوں۔ آپ سب کو معلوم ھے کہ اس بیماری کے علامتوں میں نمایان علامت میں چھینکیں آنا اور ناک سے پانی بہنا اور سانس لیتے ھوئے دشواری محسوس ھونا وغیرہ ھیں۔
آئیں کہ جائزہ لیتے ھیں کہ جب کوئی چھینک لے تو میرے اور آپ کے پیاری نبیؐ نے اس معمولی سی کیفیت انسانی کے لئے کیا حکم فرمایا تھا اور کیا اپنایا تھا۔ حضرت محمد ؐ نے فرمایا تھا جو چھیکیں وہ کہیں الحمد للّٰہ اور جو پاس ھو وہ کہیں یرحمک اللّٰہ اور چھیکنے والے پھر کہیں اللّٰہُ یھدیکم ویُصلح بالکم۔
ترجمہ۔۔ بیمار کہہ رھا ھے۔کہ تمام تعریف اللّٰہ ہی کے لئے ھیں ۔
پاس بیٹھا ھوا کہہ رہا ھے۔کہ اللّٰہ پاک تجھ پر رحم فرمائیں۔
جواب میں چیھنکنے والا پھر کہتا ھے۔کہ اللّٰہ پاک تمہیں ھدایت دے دیں اور تمہاری حالات درست فرمائیں۔
بس یہ شیوہ میرے نبی پاکؐ کا ہی تھا کہ آپ ایسے مرحلوں کے لئے اس طرح کے طریقے ابنائے تھے۔ جس میں مرتے ھوئے انسان کو بھی دعائیں دی جاتی تھیں اور پاس تیمارداری کرنے والے کو بھی بیمار دعائیں ہی دیا کرتے تھے یہی شیوا تھا۔مسلمانوں کا جن کی وجہ سی ناسوربھی بھر جاتے تھے اور صحت یابی مقدر بن جاتی تھی۔
آج میں ان اعتراض کرنےوالوں کو مسجد کے صفحوں میں دیکھتا ھوں۔ جو نمازیوں کا جینا حرام کرتے تھے۔کہ اس نماز سے کیا ھوتا ھے۔کام اور معاملات میں آپ صفر ھیں۔ خالی استنجوں اور چہرے کو دھونے سے کیا ھوتا ھے۔ افسوس اس مسلمان پر کہ آج corona virus 2019 کا علاج پانچ وقت کے نماز کے لئے کیا ھوا وضو بتانے پر ھر وہ شخص جو بھول کر نماز اور وضو کی حمایت کبھی نہیں کی تھی۔ آج وضو کرنے پر اس لئےمجبور ھوچکا ھے کیونکہ اسے مرنے کا شوق نہیں ھے۔ لیکن اس انسان نادان کو اب تو احساس ھونا چاھئے کہ نماز روزہ اور وضو جنت کے حصول کے علاوہ کئی ھزار بیماریوں سے نجات کے ذرائع بھی ھیں اس لئے ھمیں جنت کے حصول کے علاوہ بہت مضر بیماریوں سے نجات بی اللّٰہ پاک کے احکمات اور نبی پاکؐ کے زرین اور پرنور سنتوں کو اپنانے میں ھے بجائے کسی کو تنگ کرنے سے کہ یہ کہتے ھوئے کہ اس وضو اور نماز سے کیا ھوتا ھے۔
آئیں کہ عہد کرتے ھیں۔ کہ ھم اللّٰہ پاک کے احکمات اور نبی پاکؐ کی سنتوں کو ھر اس چیز پر ترجیح دیں گے۔چاھے وہ سائنسی ھو،کسی سکالر کی ھو یا کسی پیر کی ھو۔ورنہ کسی بھی آفت سے مبرا ھونے کا کوئی ذریعہ نہیں ھے۔آئیں کہ سب امت محمدیؐ تمام تفرقوں سے دستبردار ھوکر اپنے پاک نبیؐ کے عظیم سنتوں کو اپنائیں تاکہھمارے نیک اعمال ھمارے لئے بیماریوں سے نجات اور جنت کے حصول کا ذریعہ بننے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔