کرونا وائرس اور ڈر کی فضا

ڈرنے سے بہتر ہے کہ اختیاط کریں

جب زندگی سہولت اور تسلسل سے گزر رہی ہوتی ہے تو ہم اسے روٹین کہہ کر یکسر بیزاری کا اظہار کر دیتے ہیں۔ لیکن جب فطرت اچانک اپنا رویہ بدلتی ہے تو ایک دم خوف ہر وجود میں سرایت کر جاتا ہے اور ‘روٹین’ کی بیزار زندگی کی لاتعداد نعمتوں پہ رشک آنے لگتا ہے۔

’دی ڈارک نائٹ‘ میں جوکر بیٹ مین سے کہتا ہے، ’جب لوگ موت کے قریب آخری لمحات میں ہوتے ہیں تب ان کے چہرے بتاتے ہیں کہ وہ اصل میں کون ہیں۔‘ سو، یہ موت نہیں، موت کا خوف ہوتا ہے جو اچھی بھلی لگی بندھی شخصیت کے چہرے پہ ہیجان اور اضطراب کا طوفان برپا کر جاتا ہے۔
کورونا وائرس بھی ایک ایسا ہی خوف ہے جو ایک شہر سے نکل کر کئی شہروں اور کئی سرحدوں کے پار پہنچ چکا ہے۔ ہر طرف سفری پابندیاں عائد ہو رہی ہیں، پروازیں معطل ہو رہی ہیں، ائیر پورٹس سکیورٹی سیل بنتے جا رہے ہیں اور خوف ہر دل میں دھڑک رہا ہے۔

ڈرئے گا نہیں۔ کیونکہ کہا جاتا ہے کہ ڈر موت کا چھوٹا بھائی ہے۔ اس حوالے سے ایک واقعہ بہت مشہور ہے کہ۔ ایک ترقی یافتہ ملک میں ایک مجرم کو عدالت نے سزائے موت سنادی تو ڈاکٹروں نے معزز عدالت کو راضی کر لیا کہ اس بندے کو آخر مرنا ہی ہے تو کیوں نہ اس پر ایک تجربہ کیا جائے۔ عدالت سے اجازت ملنے کے بعد ڈاکٹروں نے اس مجرم کو بتایا کہ ہم کل صبح کے پہلی پہر ایک کوبرا سانپ کے ڈسنے سے آپ کو مارنا چاہتے ہیں اور چلے گئے رات بھر اس مجرم نے کوبرا سانپ کے ڈر سے سویا تک نہیں۔صبح ڈاکٹروں نے ایک نقلی کوبرا سانپ ساتھ لے کر آئے اور اس مجرم کو سوئی چھبودی جس سے حقیقتا اس بندے کی موت واقع ہوئی اور بعد میں جب ٹسٹ کیا گیا تو اس کے پورے بدن میں ڈر کی وجہ سے سانپ کی زہر بھر گئی تھی۔

اس لیے موجودہ حالات میں ڈر اور خوف سے دور رہئیے اور اللہ پر کامل یقین اور ایمان کے ساتھ اختیاط ضرور کیجئے۔ کیونکہ جتنا ہم ڈریں گے اتنا ہی ہم اندر سے کمزور ہوں گے۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔