میری بےبسی کا عالم تیرے کن کا منتظر

…..فیض العزیز فیض…….

علم کا خزانہ جو ہےوہ علام الغیوب کے پاس ہے ، جب اس کی مرضی ہوتی ہے جس کو چاہتا ہے نواز دیتا ہے۔  ہزاروں سال سیب زمین پر گرتے رہے کسی نے نوٹس نہ لیا، اللہ نے کہا یہ جو بابا کوٹ پہنے درخت کے نیچے بیٹھا ہے اس کے کان میں کہہ دے کشش ثقل، سو نیوٹن نے دریافت کر لیا۔ جب فلیمنگ نے پنسلین ایجاد کی تو انہیں رائلٹی کی پیشکش ہوئی تو پھر ہوا کچھ یوں کہ ایک رات فلیمنگ نے خط ٹائپ کیا کہ یہ ایجاد میری ذاتی ملکیت نہیں بلکہ خدا کا عطیہ اور امانت ہے، میں اس فارمولے کو انسانیت کیلئے عام کرتا ہوں، دنیا کا کوئی بھی ملک، کوئی بھی شہر، کوئی بھی معاشرہ اور انسان بنائے اسے پورا حق ہے میرا اس دریافت پر کوئی اجارہ داری نہیں ہے۔ الیگزنڈر فلیمنگ کہتے تھے کہ میں صرف ایک آلہ، ایک ذریعہ تھا، میرا کام صرف انکشاف کرنا تھا۔ خدا جب مناسب جانتا ہے علم انسان کو ودیعت کر دیتا ہے، اس میں میری محنت نہیں خداوند کا کرم شامل ہے. شاید خدا کے پاس علم کی بہت ساری پوٹلیاں لٹک رہی ہیں، جب چاہتا ہے کسی ایک کا دھاگا کاٹ کر کہتا ہے سنبھالو علم آ رہا ہے، جس کی جھولی میں پوٹلی گرتی ہے وہ خوش نصیب ہوتا ہے۔  علم ان پر اترتا ہے جو عشروں جھولی پھیلائے کھڑے رہتے ہیں، کالے، گورے کی کوئی تخصیص نہیں، خدا تو کالے کو بھی آواز دیتا ہے اور گورے کو بھی ۔پس جب کوئی متوجہ نہیں ہوتا اور امنگ ظاہر نہیں کرتا تو پھر پوٹلی اپنا راستہ بدل لیتی ہے اور کسی مستحق کی جھولی میں جا گرتی ہے۔شاید مشرق اور مغرب میں یہی فرق آج بھی ہے، مغرب پچاس فیصد محنت و جستجو کرتا ہے باقی پچاس فیصد اللہ پر چھوڑ دیتا ہے، مشرق محنت کیے بغیر سو فیصد اللہ پر چھوڑتا ہے اور جب دوا کیساتھ دعا کا اثر دوگنا ہوتا ہے تو مغرب کو بد دعائیں دیتا ہے۔ کیا آج عبادت گاہوں، گرجا گھر اور سیناگاگ میں دعائیں نہیں ہو رہی، کیا مغرب خدا کو نہیں پکار رہا۔ جان کی امان پاؤں تو پوچھ سکتا ہوں کہ کیا آج مشرق معجزے کیلئے مغرب کی جانب نہیں دیکھ رہا۔ تو حضور عرض صرف یہ کرنا ہے کہ دعا اور دوا، دونوں کی اپنی اپنی افادیت ہے اور سمجھنے کی بات صرف اور صرف یہ ہے کہ دونوں رب کائنات کی عطا ہیں، خواہ کوئی مانے یا نہ مانے یقینی طور پر سب الیگزنڈر فلیمنگ تو نہیں ہوتے مگر مذھب ہو یا جدید علوم، دونوں ہی انسانیت کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔ مذھب اور سائنس کے درمیان جنگ کوئی نئی بات نہیں. یہ جنگ عقیدے اور علم کے مابین نہیں درحقیقت مذھبی قائدین اور سائنسی عمائدین کی ہے، مفادات اور انا کی ہے۔ پروردگار مصیبت ڈالتا ہے تو بندے کو لڑنے کی صلاحیت و ہتھیار بھی دیتا ہے، سائنس بھی ایک ایسا ہی ہتھیار ہے۔ ابھی تک کرونا وائرس کا علاج تو نہیں ڈھونڈا جا سکا مگر چین نے یہ ضرور ثابت کر دیا ہے کہ سخت احتیاط سے مرض پر قابو پایا جا سکتا ہے.
دوسری طرف ہمارے ہاں ایک طبقہ ہے. جن کا کہنا ہے کہ یہ ایک چال ہے اسلام دشمنوں کا تو ان کا دجال، یہودیت اور ان سے متعلقہ مباحث کو اپنی تحقیق وتصنیف کا موضوع بنانا اس حد تک تو یہ محنت بہت مثبت اور اچھی ہے کہ اس سے دجال کا تعارف اور فتنہ دجال کے خدوخال لوگوں کے سامنے آرہے ہیں مگر اس باب میں اس قدر غلو سامنے آرہا ہے کہ دنیا میں ہونے والا ہر کام دجال اور یہودیوں کے کھاتے میں ڈال کر ان کی طاقت کو اس قدر بڑھا چڑھا کر امت کے سامنے لایا جارہا ہے کہ لوگ عمل سے معطل ہو کر چھپنے اور ان سازشوں کے آگے سرنگوں ہونے کے خیالات میں مبتلا ہیں۔بزدلی اور کم ہمتی مسلمانوں کا اس زمانے میں شعار بن چکی ہے، یورپ کی طاقت، ٹیکنالوجی کی پراسرار دنیا اور خصوصاً اپنی طاقت کے بارے میں امریکہ اور یورپ کے جھوٹے پروپیگنڈے نے مسلمانوں کے دلوں میں یہ احساس اچھی طرح بٹھا دیا ہے کہ ان کا مقابلہ مسلمان کے بس کی بات نہیں۔ ایسے میں اگر انہیں دنیا میں ہونے والے ہر کام کے پیچھے’’دجال‘‘ کی آنکھ اور یہودیت کی تکون زبردستی دکھائی جائے تو ان کی رہی سہی ہمت بھی دم توڑ دیتی ہے۔ میرے خیال میں ایسا کرنے والے اس امت کو سوائے چند لفظی مباحث اور گرما گرم معلومات کے کوئی فائدہ تو نہیں پہنچا رہے ہاں نقصان کافی کر رہے ہیں۔ ہم نے اب تک جتنے لوگوں کو اس’’دجالیت جدیدہ‘‘ کے بارے میں زیادہ معلومات والا دیکھا ہے اسے عمل سے کوسوں دور پایا ہے.
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔