نوائے سُرود……کورونا کا عفریت 

      ……شہزادی کوثر……

کرونا کے نام سے دنیا کو اپنے پنجوں میں دبوچنے والے عفریت نے تقریبا تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔اس سے مرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں اور متاثرہ افراد لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں جبکہ نفسیاتی طور پر متاثرین کروڑوں کی سطح کو چھو رہے ہیں۔انسان جیسی عظیم مخلوق کو اپنی انگلیوں پر نچانے والا،سپر پاوراور ایٹمی طاقتوں کو بے بس کرنے والا یہ وائرس انسانی اعصاب پر جو اتنی تیزی کے ساتھ سوار ہو گیا ہے اس کی وجہ سوشل میڈیا کا غلط استعمال ہے،جس مین ٓائے دن طرح طرح کی افواہیں گردش کرتی رہتی ہیں ۔ بہت سے لوگ اس کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے،خاص کر ہماری عوام  اس کو ڈرامے بازی سے ذیادہ اہمیت نہیں دے رہی۔ کچھ منچلے سوشل میڈیا پہ یہ بات پھیلاتے ہوئے دھر لیے گیئے کہ ہمیں کورونا وائرس ہے اور ہم دوسروں میں بھی پھیلائیں گے کسی میں ہمت ہے تو ہمیں روک کر دکھائے۔۔۔ یا یہ صرف بے حیثیت جراثیم ہے جو ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ،سماجی میل جول منقطع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں وغیرہ۔۔۔۔۔ اس طرح کے انتہائی غیر سنجیدہ پیغامات کی وجہ سے لوگ اس کے منفی اثرات سے نا بلد رہ کراس کا شکار ہو سکتے ہیں ،دوسری طرف پوری دنیا سے ایسی ہیبت ناک خبریں اور دہشت ناک مناظر دیکھنے کو مل رہی ہیں کہ دماغ پھٹنے لگتا ہے اور انسان سوچنے لگتا ہے کہ اس سے بچنے کی کوئی گنجائش نہیں اور اگلا شکار یقینا میں ہوں گا،معمولی کھانسی زکام اور سر درد کا مریض بھی خود کو کورونا سے متاثر سمجھنے لگتا ہے۔ ایسی صورتِحال میں سب سے ضروری چیز یہ ہے کہ سماجی رابطوں سے دوری برتی جائے ِ بار بار منہ ہاتھ دھونے ،گرم پانی پینے کے علاوہ اللہ کی ذات پر کامل یقین اور بھروسہ رکھنا چاہیے۔ میری مراد یہ ہرگز نہیں کہ احتیاطی تدابیر کو اپنائے بغیر صرف دم درود سے کام چلا لیں ،دوا اور دعا دونوں اپنی جگہ انتہائی ضروری ہیں یعنی اپنی طرف سے تمام کوششوں کے ساتھ توکل علی اللہ۔ کیونکہ اس کے بغیر انسان کی کوئی تدبیر کارگر ہو ہی نہیں سکتی۔ دیکھا جائے تو یہ وقت ٓازمائش اور امتحان کا ہے ،ہم بحیثیت امتِ محمدی اپنی ذمہ داریوں سے انحراف کرنے لگے تھے اور بحیثیت مخلوق اپنے خالق کے احکامات کو پسںِ پشت ڈال کر ٓاگے نکل گئے تھے ، یہ خالق کی محبت ہی ہے جس نے ہمیں خبردار کرنے اور اپنی طرف پلٹنےکا ایک موقع فراہم کیا ہے۔کہ ہم مذید گناہوں میں منہمک ہو کر پچھلی امتوں کی طرح قہرِالہی کے سزاوار نہ بنیں ۔ یہ وقت ہمارے دینی امتحان کا بھی ہے کہ اپنے رب سے  کس طرح اپنے تعلق کو مضبوط کر سکتے ہیں اس کی طاقت وبڑائی کے ٓاگے اپنی کم مائگی کو جان سکتے ہیں ۔ یہ ہمارا سماجی امتحان ہے کہ معاشرے کے ذمہ دار فرد کی حیثیت سے پہلے خود کو گھر تک محدود کریں میل جول سے حتی الوسع گریز کریں اس کا مطلب یہ نہین کہ اپنے گھر میں راشن بھر کر بری الذمہ ہوں کہ باہر جانے کے ضرورت نہ پڑے بلکہ اپنے ارد گرد کے لوگوں اور پڑوسیوں میں اگر کوئی ضرورت مند ہو تو اسکی مدد کرنا ہمارا معاشرتی اور اخلاقی فریضہ ہے تاکہ یہ وقت ثواب کمانے کا ذریعہ بن جائے۔  ہیمں نفسیاتی طورپر خود کو مضبوط بنانا ہو گا بہت سی جنگیں نفسیاتی طور پر ہی لڑی جاتی ہیں کیونکہ یہی چیز نفسیاتی طور پر اپنا دفاع کرنے کے قابل بناتی ہے، خوف ذدہ ہونے والی کوئی بات نہیں  اپنی قوتِ ارادی کو مضبوط بنا کر اس سے لڑنا اور فتح حاصل کرنی ہو گی ۔بہت سے لوگ کمزور قوت ارادی کی وجہ سے اپنی قوت مدافعت برباد کر دیتے ہیں ،اللہ پر کامل یقین کے ساتھ خود پر بھروسہ ہمارے لیے بہت کار گر ثابت ہو گا۔ ہمیں اس چیز سے ذرہ بھر کے لیے بھی غافل نہیں ہونا چاہیے کہ اقتدار اعلیٰ جس کے ہاتھ میں ہے اس کی قدرت کا کرشمہ ہے کہ ایک چھوٹے سے مچھر نے نمرود کی خدائی کے دعوے کو خاک میں ملایا تھا ٓاج ایک حقیر اور نظر نہ ٓانے والی مخلوق سے نوعِ انسانی کو بے بس کر کے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے۔ہمیں اس خالقِ ارض و سماں کے حضور اپنی ذلت و رسوائی اور بے بسی کا صدقِ دل سے اظہار کر کے دعا مانگنی چاہیے کہ وہی اس عفریت سے ہمیں بچا سکتا ہے اس سے تعلق کو مضبوط کرنے اسی سے مدد کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک اور بات بھی ذہن میں ٓارہی ہے کہ اس  وبا کے ذریعے سے اللہ ہمیں شکر کرنے کا موقع فراہم کر رہا ہے ۔گھروں میں محصور ہو کر احساس ہو رہا ہے کہ ٓاذادی ،دوست احباب کتنی بڑی دولت ہیں ۔تیز رفتار زندگی کے جھمیلوں میں پڑ کر ہم اپنے پیاروں کی قدرو اہمیت کا اندازہ نہیں کر پا رہے تھے اب ان سے چند دن کی جدائی کتنا مشکل لگ رہی ہے۔جو لوگ جیلوں میں اپنی زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں ان کے دکھ کا شدت سے احساس ہو رہا ہے کہ قیدِ تنہائی کتنی بڑی اذیت ہو گی۔ان لوگون کے کرب کو ذہن میں رکھتے ہوئے لوگوں کے بہبود کی خاطر کچھ دن گھروں میں رہنا ہو گا ۔ہماری گلیاں اور سڑکیں سنسان اور اجڑی ہوئی دکھائی بھی دیں تو کوئی بات نہیں یہ مجبوری ہے کیونکہ                               عجیب مرض ہے جسکی دوا ہے تنہائی

بقائے شہر ہے اب شہر کے اجڑنے میں

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔