ترش و شیرین…. تبلیغی جماعت اور دوستوں کے گلے شکوے

….. نثار احمد…..
           آج اگر تبلیغی جماعت کا جال پوری دنیا میں پھیلا سب کو نظر آ رہا ہے تو اُس کی وجہ اس جماعت کا اخلاص ہی نہیں، بلکہ اِس کی نرم مزاجی، حکومت کے ساتھ بھرپور تعاون اور عدم ٹکراؤ کی حکمتِ عملی سے چمٹے رہنا بھی ہے۔چند افراد پر مشتمل تبلیغی جماعت جس ملک میں بھی جاتی اور کام کرتی ہے وہاں کے تمام قوانین کی پاسداری کو حرجان بنائے رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی ملک اس جماعت کے لیے اپنا دروازہ بند نہیں کرتا۔ دنیا میں شاید ہی کوئی خطہ ہو گا جہاں تبلیغی جماعت کے لوگ دعوت کا عَلم تھامے نہ پہنچے ہوں۔ بیرونی ممالک میں جماعت جہاں بھی کام کرتی ہے وہاں اپنے پیچھے محبت، خلوص، انسان دوستی اور روا داری کے خوشگوار انمٹ نقوش چھوڑتی ہے۔ ہٹ دھرمی،ضد اور تصادم سے اللہ واسطے کا بیر رکھنے والی اس جماعت کی بنیاد انیس سو چھبیس میں میوات ہندوستان میں رکھی گئی تب سے لے کر آج تک یہ جماعت مسلسل میدان ِ عمل میں ہے۔
       تبلیغی جماعت کسی خاص جھنڈے تلے کام نہیں کرتی ۔ اس کے سیاسی مقاصد ہیں اور نہ یہ تاج و تخت کے حصول کی کوئی خواہش رکھتی ہے۔ کہنے کو یہ جماعت عملاً دیوبندی شناخت کی حامل ہے لیکن لوگوں کو یہ دیوبندیت کی طرف بلانے کی بجائے اسلام کی طرف بلاتی ہے۔ یہ اپنی دعوت (اعمال و افعال کی درستی ) کا مخاطَب صرف دیوبندی یا حنفی الفکر مسلمانوں کو ہی نہیں، بلکہ اہل حدیث،بریلوی اور اہل تشیع کو بھی بناتی ہے۔ عصبیت اور تفرّق کی کسی بھی شکل سے خود کو الگ تھلگ رکھنے والی یہ جماعت کسی ایک مکتبہ ء فکر کی نہیں، پوری اُمّت کی بات کرتی ہے۔
      یہ ہمارے تبلیغی بھائی ہی ہیں جو زمانے کے تیزوتند ناموافق ہواؤں کا مقابلہ محض اللہ کی رضا جوئی اور لوگوں کو اللہ کی طرف متوجہ کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ اپنے مسلمان بھائیوں کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر خواب ِغفلت سے جگانے اور اپنے خالق کی طرف متوجہ کرنے کے لیے تبلیغی جماعت والے گھر بار چھوڑ کر اپنے بستر اپنے کندھے پر اُٹھائے انجان بستیوں کی خاک چھانتے ہیں۔ ان کی سوچ و فکر کا محور و مرکز یہی کہ سب لوگ اللہ والے بن جائیں، نمازی بن جائیں، ایک دوسرے کا خیال رکھنے والے بن جائیں۔ اچھے اخلاق والے بن جائیں۔ اس راستے میں انہیں کتنی صعوبتیں جھیلنی پڑتی ہیں؟ یہ وہی جانیں جو اس راہ میں مسافر بنے در در اور کوچہ کوچہ پھیرتے ہیں۔
 آتش دان کے قریب نرم و ملائم صوفے پہ بیٹھے، لیٹے یا پھر ٹانگ پہ ٹانگ رکھے چند حروف جوڑ کر الفاظ بنانے والے مجھ جیسے فیس بکی دانشوروں کو کیا معلوم کہ دعوت کا یہ کام کتنا مشکل، حوصلہ طلب اور صبر آزما ہے۔ ٹچ موبائل ہاتھ میں لے کر فیس بک پر یہ لکھنا تو آسان ہے کہ جماعت یوں کیوں کرتی،یوں کیوں نہیں کرتی لیکن خود چلّے کے لیے کسی دور دیہات پہ نکل کر اپنے مسلمان بھائی کو بھولا ہوا سبق مسلمانی  یاد کرانا بہت مشکل ہے۔
        میرے خیال دنیا میں شاید ہی کوئی جماعت ہو جس کا دعویٰ یہ ہو کہ اس سے منسلک تمام لوگ دودھ کے دُھلے اور پاک پوتر ہیں۔ ایسا دعویٰ کوئی کر سکتا ہے اور نہ ہی یہ عقلاً ممکن ہے۔ یہی حال تبلیغی جماعت اور تبلیغی بھائیوں کا ہے۔ تبلیغی بھائیوں پر بھی تنقید کی گنجائش ہمہ وقت موجود ہوتی ہے اور ان کے مجاہدے پر تحسین و ستائش کا امکان بھی۔  بعض دوست تو ہمہ وقت اِن سے شکوہ و شکایات کی لمبی فہرست بغل میں لیے ، اور ان پر اعتراضات کا ضخیم پلندہ ہاتھ میں اُٹھائے پھیرتے ہیں۔ انہیں جب بھی لب کشائی کا موقع ملتا ہے تو گفتگو کی تان یہاں آ کر ٹوٹ جاتی ہے کہ سارے مسائل تبلیغیوں کے پیدا کردہ ہیں لیکن اس وقت یہاں ان دوستوں کے اعتراضات کی گرہ کشائی مقصود ہے اور نہ ہی جوابات پہ خامہ فرسائی۔ ظاہر ہے تبلیغی بھائی بھی اسی “مثالی” معاشرے کے افراد ہیں جس معاشرے کی “تعریف” میں ہم چوبیس گھنٹے رطب اللسان رہتے ہیں۔ پھر بھی من حیث المجموع دیکھا جائے تو نوجوان نسل کو مذہبی تصوّرات کے ساتھ باندھ رکھنے اور دینی علوم کی طرف کھینچ لانے میں تبلیغی جماعت کا  کردار انتہائی کلیدی اور تسلی بخش رہا ہے۔ اپنے محلّے کی مسجد میں آئی جماعتوں کی باتیں سُن سُن کر کتنے نوجوان ہیں جو دین کی طرف مائل ہوئے۔ ان میں سے بہت سوں نے خود کو دینی علوم کی تحصیل کے لیے بھی وقف کردیا۔ آج اگر مدارس میں قرآن وحدیث اور ان دونوں سر چشموں سے پھوٹنے والے علوم کا درس وتدریس جاری ہے تو اس کی بڑی وجہ تبلیغی ہی ہیں۔
        یہ ایک انتہائی سطحی اپروچ ہے کہ تبلیغیوں کو جانچنے، پرکھنے اور ان پر حکم لگانے کے لیے محلّے کے کسی ایک ایسے فرد کو پیش کیا جائے جس نے چہار ماہ یا چلّہ لگانے کے بعد خود کو تبلیغ کے ساتھ منسلک نہیں رکھ سکا ہو۔ پھر اُس کی طرف انگلی اٹھا کر دکھایا اور بتایا جائے کہ فلاں تبلیغ میں جانے کے باوجود دو نمبری کر رہا ہے۔ ا گر افراد کو ہی معیار بنانا ہے تو پھر کسی ایسے کسی ٹھیٹھ تبلیغی کو کسوٹی پہ لانا چاہیے جو تبلیغ کے جُملہ مقامی اعمال کو بجالاتا ہو، شوری کا فرد ہو اور ٹھیک ٹھاک تبلیغ کو اپنا وقت دیتا ہو۔
            آج تبلیغی جماعت کی نغمہ سرائی کا خیال اس لیے آیا کہ کل سے تبلیغی جماعت کا میڈیا ٹرائل چل رہا ہے۔ تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ جیسا کہ پورا پاکستان احتیاطاً گھروں میں نظربند ہے صرف تبلیغی جماعت کوتاہی در کوتاہی کیے اور وبا پھیلائے جا رہی ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ، حاشا وکلا۔ کوتاہی ہوئی، ہر سطح پر ہوئی۔ دبا کر ہوئی ،بے تحاشا ہوئی۔ کوتاہی حکومت سے بھی ہوئی اور عوام سے بھی۔ بارڈرز پر بھی ہوئی اور ائرپورٹس پر بھی۔ ہوٹلوں میں بھی ہوئی اڈوں میں بھی۔کسی ایک شعبہء زندگی کے افراد سے نہیں، تمام شعبہائے زندگی کے افراد سے ہوئی۔ احتیاطی تدابیر سرعام پاؤں تلے اب بھی مَسلی جا رہی ہیں۔ نظر نہ آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اگر دیکھنے والی آنکھ منصف اور غیر متعصب ہے۔ ایسے میں صرف تبلیغیوں کو تنقید کے سولی پہ چڑھانا منصفانہ اظہاریہ نہیں، بلکہ یہ دل میں چُھپی پرانی عداوت کا شاخسانہ ہے۔
          ٹھیک ہے کہ ایک کوتاہی دوسری کوتاہی کے لیے جواز نہیں بن سکتی لیکن یہ بھی ناانصافی ہے کہ تبلیغیوں کے معاملے میں کسی واقعے کو بڑھا چڑھا کر پیش کر کے ایسا سماں باندھا جائے کہ کرونا وائرس پھیلنے سے ہاتھ جوڑ کر انکار کر رہا تھا بس تبلیغیوں کی برکت سے نہ چاہتے ہوئے ملک بھر میں پھیل گیا۔ نوبت باایں جا رسید کہ کل ایک ویڈیو میں صاف دکھائی دے رہا تھا کہ کرونا کے مریضوں کو ایک تبلیغی مرکز میں زبردستی داخل کرانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ دراصل کچھ دنوں سے میڈیا پہ اہل تشیع زائرین کے بہت بڑے پیمانے پر تفتان بارڈر سے ملک میں داخل ہونے کو لے کر سخت تنقید ہو رہی تھی اب شاید اُدھر سے خاص منصوبے کے تحت معاملہ برابر سرابر کرنے کے لیے پروپیگنڈے کا دھانہ کھول لیا گیا ہو۔
 بہرحال جو بھی ہو، جتنا نقصان ہونا تھا ہو چکا ۔ اب حکومت کو چاہیے کہ عوام کو آپس میں دست و گریباں کر کے اپنی نااہلی چھپانے کی بجائے ازسرِ نوحکمتِ عملی تشکیل دے۔ اب تک جتنی کوتاہیاں ہوئیں اُن سے سبق سیکھے اور کرونا کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی اپنی کوششیں تیز کرے۔
       اللہ تعالیٰ سے دعا ہے اور ہماری دلی خواہش بھی کہ یہ تبلیغی مراکز قائم و دائم رہیں۔ یہ مبارک نقل وحمل جاری و ساری رہے۔ اس وبائی صورتحال سے تمام انسانیت نجات پالے۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔