دادبیداد….تیسری عالمی جنگ

……ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی……

ماہرین نے کورونا کی وباء کو تیسری عالمی جنگ قرار دیا ہے۔اقوام متحدہ کے سکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے خبردار کیا ہے کہ کورونا وائرس کے بعد انسانی آبادی کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے اور اس کے نقصانات دوسری جنگ عظیم سے کئی گنا زیادہ ہو سکتے ہیں۔اپریل کی4تاریخ تک جو اعداد وشمار سامنے آئے ہیں ان کے مطابق اٹلی میں 14ہزارجانیں ضائع ہوئی ہیں چین،ایران،جرمنی اور فرانس کو ملاکرکل اموات کی تعداد 14ہزار بنتی ہے۔فرانس میں ایک ہی دن 1200شہریوں کی اموات رپورٹ کی گئی ہیں۔عالمی معیشت کو اب تک4کھرب ڈالرکا نقصان ہوا ہے۔دنیا میں اگلے 6مہینوں کے اندراڑھائی کروڑشہریوں کے بے روزگار ہونے کا خدشہ ہے۔یہ تخمینہ براہ راست نظر آنے والے نقصانات کا ہے۔لاک ڈاون،کارخانوں کی بندش،بازاروں کی بندش،ٹرانسپورٹ کی بندش اور دیگر پابندیوں سے عالمی معیشت کو بالواسطہ جس طرح کے نقصانات کا سامنا ہوگا۔ان کا شمار آسان نہیں۔محاصل جمع کرنے والے اداروں کے اہداف بھی نیچے چلے جائینگے۔بینکوں میں جمع ہونے والی بچتوں کے اہداف بھی نیچے چلے جائینگے۔سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ مجموعی قومی پیداوار گھٹ جائیگی۔افراط زر میں اضافہ ہوگا۔غربت کی لیکر سے نیچے زندگی گذارنے والوں کی تعداد ایک ہی سال میں دگنی ہوجائینگی۔انگریزی میں اس کو”مابعد کورونا عذاب یا کورونا کا ملبہ(Post Corona disaster)کہاجارہا ہے۔اقوام متحدہ نے ترقی پذیر ممالک کیلئے2.5ٹریلین ڈالر کے امدادی پیکیج کا مطالبہ ترقی یافتہ اقوام کے سامنے رکھا ہے۔لیکن ترقی یافتہ اقوام کو اپنی پڑی ہوئی ہے۔ہرقوم اور ہرملک اس وقت سکتے کی حالت میں ہے شیکسپیر کے ڈرامے کا ایک کردار کہتا ہے”وجود اور عدم ہی ایک سوال ہے“(To be or not to be is the question) “۔آج امریکہ اور چین سے لیکر روس اور جاپان تک ہرقوم کے سامنے یہ سوال رکھا ہوا ہے۔دوسری جنگ عظیم1939میں شروع ہوئی1945میں ختم ہوئی اس جنگ میں پہلی بار فضائی بمباری ہوئی ایٹم بم کا استعمال ہوا۔ہیروشیما اور ناگاساکی کے دوبڑے صنعتی شہر6اگست اور9اگست کے دودنوں میں تباہ ہوئے 6لاکھ شہری دو شہروں میں لقمہ اجل بنے،ایٹمی تابکاری سے اگلے10سالوں میں 7لاکھ شہری معذور ہوئے اس جنگ میں دونوں طرف سے85ملین(8کروڑ50لاکھ)انسانی جانیں ضائع ہوئیں اُس وقت دنیا کی کل آبادی 2ارب 30کروڑ تھی۔دوسری جنگ عظیم کے75سال بعد کورونا کی عالمی وبا آگئی ہے اور اس وبا کی شدت سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد عالم انسانیت کے خلاف یہ سب سے بڑی جنگ ہے۔اس کو کیمائی جنگ کانام دیں یا نہ بھی دیں کوئی فرق نہیں پڑتا اگلے دوسالوں میں یہ وباخود اپنے آپ کو ایک نئی جنگ کے طورپر ثابت کرے گی۔ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ عالمی معیشت میں جو کساد بازاری1929،1945اور2008میں آئی تھی۔ان تینوں اقتصادی بحرانوں سے بڑا بحران 2020میں آنے والا ہے۔جب سٹاک ایکسچینج مندی کی پست سطح کو چھولینگی۔عالمی سطح پر توانائی کے ذرائع سکڑ جائینگے۔اور قوموں کو محاصل کے بڑے بڑے ذرائع سے ہاتھ دھونا پڑے گا اگر2019ء میں 100ڈالر ماہانہ کمانے والا عزت کی روزی حاصل کرتا تھا تو2020میں 300ڈالر ماہانہ کمانے والا دووقت کی روٹی کو ترسے گا اعداد وشمار کے اس گورکھ دھندے کو ایک طرف رکھ کر ہم اگر اس وباء کی اصلیت اور حقیقت پر غور کریں توکئی اسرارورموزسے واقفیت ہوتی ہے اور ایسے پوشیدہ راز فاش ہوتے ہیں جنکی طرف ہم نے کھبی دھیان نیں دیا۔مثلاً ہم نے آسمانی کتب میں یہ بات تواتر کے ساتھ پڑھی ہے کہ ابراہیم علیہ سلام کے زمانے میں ظالم بادشاہ نمرود کی ناک کے اندر ایک مچھر گھس گیا۔اور یہی اُس کی موت کا سبب بنا۔آسمانی کتابوں کی تاویل میں مہارت رکھنے والے اس کانام مچھر لیتے آئے ہیں اسرائیلی روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ نمرود کی بیماری کاعلاج یہ تھا کہ اُس کے سرپر ڈنڈے مارے جائیں۔اندر مچھرباہر ڈنڈا یہ عذاب تھا جس نے نمرود کی جان لے لی اور اس کی بادشاہت کا غرور خاک میں ملادیابالکل اسی طرح کورونا کے نام سے جو جرثومہ چین کے شہر ووہان سے نکل کردنیا میں پھیلا ہے اس کا قد خوردبین سے بمشکل نظر آتا ہے۔یہ جاندار جرثومہ نہیں بلکہ لیبارٹری میں بنا ہوا کیمائی جرثومہ ہے۔جس کو مارا نہیں جاسکتا،گرم محلول یا بھاپ میں تحلیل کیا جاسکتا ہے۔ہم اس کو مچھر یا مکھی کی طرح کیڑا بھی نہیں کہہ سکتے۔بیکٹیریا بھی نہیں کہہ سکتے۔اتنی حقیر سی چیز ہے جس نے دنیا کے تمام سائنسدانوں،ڈاکٹروں،انجینئروں اور اُن کے اعلیٰ سے اعلیٰ لیبارٹریوں کو تگنی کاناچ نچایا ہے انسانی ذہانت اور مصنوعی ذہانت کے تمام کمالات اس حقیر جرثومے کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئے ہیں۔اکیسویں صدی کا یہ بہت بڑا سبق ہے کہ انسان جتنی بھی ترقی کرے،سائنس اور ٹیکنالوجی تسخیر کائنات میں جتنی بڑی چھلانگیں مارے،اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کے سامنے اُس کی حیثیت مکھی کے پرسے بھی کم ہے وہ ایک حقیرجرثومے کو شکست دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔2020ء میں عالمی معیشت کا ہیبت ناک محل زمین بوس ہورہا ہے عالمی اقتصادیات کے تمام پیمانے اُلٹ دیے ہیں۔ترقی اور کامیابی کے سارے معیار ختم ہورہے ہیں اگر اگلے10سالوں میں عالمی معیشت نے پھر سراٹھالیا تو یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ممکن ہوگا۔ورنہ انسان نے اپنے ہاتھ سے دوسری جنگ عظیم سے بھی بڑا عالمی بحران پیدا کیا ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔