دادبیداد…..سکاوٹ اورکیڈٹ

…..ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی….

بہت کم لوگوں کو پتہ ہے صدر عارف علوی وطن عزیز کے چیف سکاوٹ ہیں۔بوائے سکاوٹ،گرل گائیڈ اور نیشنل کیڈٹ کور نوجوانوں کے لئے تھے اور سکولوں،کالجوں میں ہوا کرتے تھے۔وقت آگے بڑھتا رہا،دنیا ترقی کرتی رہی ترقی کی اس دوڑمیں اس طرح کے کام ہم سے چھوٹ گئے۔موجودہ حکومت سکولوں اور کالجوں میں صحت مند تعمیری سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔وزیراعلیٰ محمود خان کو سابق ریاست سوات کے سکولوں اور کالجوں میں طلبہ وطالبات کی صحت مند سرگرمیوں کا بخوبی علم ہے جن لوگوں نے1990سے پہلے کے تعلیمی ادارے دیکھے تھے ان کو بھی بخوبی علم ہے کہ سکاؤٹنگ کیاتھا۔گرل گائیڈ کسے کہتے تھے اور این سی سی کس چڑیا کانام تھا۔اُس وقت تعلیم کا مقصد طلبا اور طالبات کو ہمہ جہت زندگی میں اپنابھرپورکردار کرنے کے لئے تیار کرنا تھا۔اس وقت پورے صوبے میں گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول فتح پور سوات میں اس طرز پر تعلیم دی جارہی ہے اور اس کا کریڈٹ صوبائی حکومت کے ساتھ ساتھ سکول کے پرنسپل کی ذاتی دلچسپی اور محنت کو بھی دیا جاتا ہے۔صوبائی سطح پر ایسا دوسرا سکول نہیں ملتا۔جہاں نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں پر بھی بھرپور توجہ دی جاتی ہو۔ہمیں امریکہ،برطانیہ،چین اور جاپان میں ہم نصابی سرگرمیوں سے مثالیں دے کر اپنا نظام مانگنے کی ضرورت نہیں۔سوات اور چترال کی سابق ریاستوں میں 1969کے انضمام سے پہلے جو سسٹم تھا اس کا صوبائی سطح پر بحال کرنے کی ضرورت کا احساس دلانا کافی ہے۔نیز 1970کے عشرے میں کالجوں کے اندر نیشنل کیڈٹ کور کے نام سے نوجوانوں کی فوجی تربیت کا جو مثالی نظام لایا گیا تھا اس کے دوبارہ احیاء پر زور دینا وقت کا تقاضا ہے۔تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ سکولوں کے طلبا اور سکولوں کی طالبات کو بوائے سکاوٹس اور گرل گائیڈز کی سالانہ تربیت کا انتظام ہوتا تھا یہ تربیت نئی نسل کو مستقبل کی زندگی میں فعال سماجی کردار اوا کرنے کے قابل بناتی تھی۔بوائے سکاوٹس اور گرل گائیڈز کا ایک ہی طریقہ کارتھا۔لیکچروں کی ذریعے طلبا اور طالبات میں سماجی کاموں کے لئے آگاہی،عملی تربیت کے ذریعے سماجی کاموں میں حصہ لینے کا موقع اور طلباء طالبات کی پوشیدہ صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے کے لئے مختلف سرگرمیوں کا اجراء سکاوٹس اور گرل گائیڈز کیمپ کے پہلے روز کی سب سے پہلی سرگرمی میں مخصوص رومال کی ٹائی باندھنے کا طریقہ سکھایا جاتا تھا۔یہ وہ ٹائی ہے جو صدر مملکت کوچیف سکاوٹ کا بیج لگانے سے پہلے ان کو گلے میں پہنایا جاتا ہے اس کے دورنگ اتنے دلکش تھے کہ اس کے ساتھ ایک طرح کی محبت سی ہوجایا کرتی تھی۔ہمیں یاد ہے جب مخصوص ٹائی باندھ کر ہم نکلے تو ہمارے استاد نے اشارہ کیا دیکھو یہاں کون گرا پڑا ہے پہلے لیکچر کے مطابق ہمارے دوساتھی محمد یعقوب اور شیر یعقوب آگے بڑھے اُنہوں نے گرے ہوئے لڑکے کی نبض دیکھی اس کے سینے کی ہلکی مالش کی دوساتھیوں نے جلدی سے دو بانس اُٹھائے ایک چادر کو بانسوں کے ساتھ گانٹھیں لگاکر باندھا اور سٹریچر بناکر گرے ہوئے لڑکے کو سٹریچر پر ڈال دیا اور گراونڈ تک پہنچایا۔خیمے کے اندر لگے ہوئے عارضی بستر پر مریض نے آنکھ کھولی تو پتہ لگا کہ یہ ہماری فٹ بال ٹیم کا لفٹ آوٹ جاوید اقبال تھا جسے فزیکل ایجوکیشن سپروائزرنے ہماری تربیت کیلئے اس جگہ لٹایا ہوا تھا۔سپروائزر میر گلاب شاہ نے ٹنڈر فٹ کا جو سبق ہمیں پڑھایا تھا وہی سبق فوجی بھرتی میں کام آتا ہے اور آج کل بہت مقبول ہے۔خدا بخشے میرگلاب شاہ صاحب مرنجاں مرنج طبیعت کے مالک تھے پورے ضلع کے سکولوں کا دورہ کرکے ڈرل،پی ٹی اور سکاوٹنگ کا جائزہ لیتے تھے،ہمارے ڈرل ماسٹر حاجی حکیم خان ٹھیٹ فوجی تھے اور بیحد سخت مزاج تھے۔آج کل ڈرل ماسٹروں کو جنرل سائنس پڑھانے پر لگایا جاتا ہے کیونکہ نئے سکولوں میں پیریڈ گراونڈ کی سہولیات ختم کردی گئی ہیں۔سکاوٹس اور گرل گائیڈز کانام کسی نے نہیں سنا۔سکاوٹس جمہوری گذرے وقتوں کی کہانی ہے۔حیات آباد میں بوائے سکاوٹس ہا سٹل اور اسلام آباد میں بوائے سکاوٹس ہیڈکوارٹر کوویرانے میں بدلتے ہوئے عرصہ ہوا۔اب دونوں جگہوں پر اُلوبھی نہیں بولتا ان پر انجام گلستان والامصرعہ بھی چسپاں نہیں ہوسکتا۔ایک محقق نے صوبائی حکومت کے دفاترکا کھوج لگایا،ضلعی دفاتر میں ایلمنیٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کے دفتروں پر دستک دیکر دیکھا۔ابتدائی وثانوی تعلیم کے کسی دفتر میں بوائے سکاوٹس اور گرل گائیڈز پر پابندی یا ان کی بندش کا کوئی حکمنامہ دستیاب نہیں۔گویا کاغذات میں دونوں موجود ہیں۔البتہ فزیکل ایجوکیشن کے سپروائزر کا عہدہ ختم کردیا گیاہے اس کی جگہ اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افیسر فزیکل ایجوکیشن کا عہدہ لایا گیا ہے جس کے فرائض ہمارے زمانے میں سپروائزر سے مختلف ہیں صوبائی حکومت کی تھوڑی سی توجہ سے بوائے سکاوٹس اور گرل گائیڈز کے صوبائی ہیڈکوارٹر کو فعال کیا جاسکتا ہے۔اضلاع کی سطح پر اس قسم کی صحت مند سرگرمیوں کو دوبارہ فروغ دیا جاسکتاہے۔جہا ں تک نیشنل کیڈٹ کو رکا تعلق ہے دراصل جنرل یحییٰ خان کا لایا ہوا پروگرام تھا،بھٹو صاحب نے اس کی حوصلہ افزائی کی ہر کالج میں پاک فوج کا مختصر کیمپ ہوتا تھا جس میں انسٹرکٹر ہوتے تھے۔بندوقیں ہوتی تھیں،فوجی وردی کا سٹاک ہوتا تھا۔کالج کے ہرطالب علم کے لئے نیشنل کیڈٹ کی تربیت لازمی تھی اور اس کے20نمبر بھی ملتے تھے۔کالج کے ٹائم ٹیبل میں نیشنل کیڈٹ کو ر کا باقاعدہ پیریڈ ہوتا تھا۔تربیت کے دوران طلبا کو چاند ماری کے ذریعے شوٹنگ کی مشق بھی کرائی جاتی تھی۔سال کے آخر میں نیشنل کیڈٹ کور کی پاسنگ آوٹ پیریڈ ہوتی تھی۔کور ہیڈکوارٹر میں این سی سی کا دفتر ہوا کرتا تھا اور بریگیڈئیر لیول کا افیسر اس کا سربراہ ہوتا تھا۔ہرطالب علم کو اس دفتر سے سرٹیفیکیٹ دئیے جاتے تھے۔آج یہ سارا کام دیوانے کا خواب یا شیخ چلی کا منصوبہ لگتا ہے۔یہ بات تحقیق طلب ہے کہ نیشنل کیڈٹ کور کے نام سے چلنے والی اس اہم سکیم کو پاک فوج نے ختم کیا۔سول حکومت نے بند کروایا،طالبان نے بند کروایا اگر ان میں سے کسی نے بند نہیں کروایا تو یہ سکیم کیوں اور کیسے بند ہوئی۔قرنطینہ میں بیٹھا ہوا بندہ سوچتا ہے تو حیراں رہ جاتا ہے کہ ہماری حکومتیں اچھی سکیموں کو کس لئے ختم کرتی ہیں؟

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔