غیر ذمہ داری

…….محمد شریف شکیب……

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن اور طبی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ مئی کے آخر میں کورونا کیسوں کی تعدادمیں غیر معمولی اضافے کا خدشہ ہے۔ پی ایم اے کا کہنا ہے کہ مئی کے دوسرے اور تیسرے ہفتے میں کورونا کیس اندازے سے زیادہ ہوں گے، اسپتالوں، ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل اسٹاف پر بوجھ حد سے زیادہ ہوگا، عوام اور انتظامیہ کو سخت حفاظتی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔پی ایم اے کے مطابق کیسز بڑھنے کی وجہ بظاہر یہی ہے کہ لاک ڈاؤن پرموثرعمل درآمد نہیں ہورہا۔ رمضان میں سماجی رابطوں پر کنٹرول ممکن نہیں ہوگا۔ ملک کا ہر شخص یہ بات سمجھ لے کہ کورونا وائرس حقیقت ہے۔اس حوالے سے مختلف قیاس آرائیاں بے معنی ہیں۔ادھر امریکہ اور برطانیہ نے بھی کورونا کیسز کی تعداد آنے والے مہینوں میں بڑھنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔وزیراعظم عمران خان بار بار قوم سے اپیل کر رہے ہیں کہ سماجی فاصلوں اور احتیاطی تدابیر پر عمل کیا جائے اور لاک ڈاون کی پاسداری کی جائے۔ مگر ہمارے عوام، نوجوان طبقہ، تاجر برادری اور سیاست دان اس حوالے سے نہایت غیر ذمہ داری اور غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔اپوزیشن کی جماعتوں نے ایک طرف عوام سے گھروں میں رہنے، ہاتھ ملانے سے گریز اور سماجی فاصلے قائم کرنے کی اپیل کی ہے دوسری جانب 98اپوزیشن ارکان نے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ریکوزیشن بھی جمع کرادی ہے۔مسلم لیگ(ن)اور جمعیت علمائے اسلام کی طرف سے جمع کرائے گئے ریکوزیشن میں کہا گیا ہے کہ وہ قومی اسمبلی کے ورچوئل اجلاس کو مسترد کرتے ہیں،قومی اسمبلی کا ریکوزیشن اجلاس بلایا جائے۔کورونا سے نمٹنے کی تیاریوں، حکومتی اقدامات، اب تک ملنے والی امداد اور رعایتوں کی مانیٹرنگ،کورونا پر اخراجات اورٹائیگر فورس کو فراہم کی گئی نقد رقم کے حوالے سے ایوان کو آگاہ کیا جائے۔ملک میں اس وقت جنگ کی سی صورتحال ہے، کورونا کیسز اور اس کے نتیجے میں اموات کی تعداد میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہورہا ہے۔ حکومت ہسپتالوں میں طبی سامان کی فراہمی، ٹیسٹنگ کٹس کی تعداد بڑھانے اور لاک ڈاون سے متاثر ہونے والے غریب طبقے کو نقد امداد اور اشیائے خوردونوش کی فراہمی کے لئے کوشاں ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے کورونا کی روک تھام کے لئے حکومت پاکستان کے اقدامات کو انتہائی موثر اور شاندار قرار دیا ہے۔ دوست ممالک اور مالیاتی اداروں کی طرف سے پاکستان کو مالی امداد اور حفاظتی سامان فراہم کیا جارہا ہے۔یہ وقت سیاسی دکان چمکانے کا نہیں۔نہ ہی کورونا سے جنگ صرف حکومت کی ذمہ داری ہے۔ سیاسی جماعتوں، سرکاری اداروں، رفاہی انجمنوں، سول سوسائٹی،صاحب حیثیت لوگوں، میڈیا اور معاشرے کے تمام طبقوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ کورونا کی روک تھام کے لئے اپنے حصے کا کردار ادا کریں، لوگوں کو گھروں تک محدود رہنے کی تلقین کریں، سماجی فاصلے قائم کرنے کے حوالے سے مروجہ اصولوں کی پاسداری کرائیں۔حکومت نے مزدور پیشہ طبقے کی حالت زار کا احساس کرتے ہوئے لاک ڈاون میں نرمی کا اعلان کیا ہے، تعمیرات کے شعبے کو صنعت کا درجہ دے کر اسے لاک ڈاون سے مستثنیٰ قرار دیا ہے تاکہ مزدور وں کی دیہاڑی لگی رہے اور ان کے گھروں میں فاقوں کی نوبت نہ آئے۔ مگر ہم نے اس نرمی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے لاک ڈاون کو جوتی کی نوک پر رکھ دیا ہے۔ بازار، چھوٹے ہوٹل، کاروباری ادارے کھل گئے ہیں۔انتظامیہ کی طرف سے دکانیں بند کرنے پر پشاور میں تاجروں اور پولیس اہلکاروں کے درمیان تصادم بھی ہوا ہے اور بات فائرنگ تک بھی پہنچ گئی۔ جو انتہائی افسوس ناک ہے۔حکومت نے غریب اور مجبور لوگوں کو بارہ ہزار روپے فی خاندان امداد کی فراہمی شروع کردی ہے۔ جس کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے غیر مستحق لوگوں نے بھی درخواستیں جمع کرائیں، اچھے خاصے متمول لوگوں کے گھر وں میں بھی تین تین افراد نے مالی امداد حاصل کی ہے۔جن لوگوں کے پاس موبائل کی سہولت تک نہیں، اور وہ درخواست جمع نہیں کراسکے، وہ مالی امداد سے محروم اور فاقوں پر مجبور ہیں۔امدادی سامان کے حصول کے لئے کھینچاتانی، دھینگا مشتی اور دھکم پیل کے جو مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں وہ بھی قابل افسوس ہیں۔لاک ڈاون کی جو کھلم کھلا خلاف ورزیاں دیکھنے میں آرہی ہیں اس کے تناظر میں حکومت اور میڈیکل ایسوسی ایشن کے خدشات درست ثابت ہوتے نظر آرہے ہیں ایسی صورت میں حکومت کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا کہ ملک بھر میں کرفیو نافذ کرے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو موقع پر گولی مارنے کا حکم جاری کرے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔