یوم مزدور، وباء کے دن اورمحصور چترالی مزدور

……تحریر: آمیر نایاب

مجھ کوتکھنے نہیں دیتا یہ ضرورت کا پہاڑ
میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے

آج یکم مئی عالمی یوم مزدورکے دن قوم چٹھی منارہی ہے، جس طبقے کے افراد کی قابانیوں کے نتیجے میں یہ تعطیل منائی جاتی ہے، وہ آج بھی مشقت میں ڈوبے دکھائی دیتے ہیں۔ عالمی یوم مزدور کے دن کچھ سماجی، سیاسی تنظیمیں ریلیاں نکال کراور تقاریب کرکے خانہ پوری تو کردیتی ہیں،لیکن اس دن سے وابستہ افراداپنے عالمی دن کی اہمیت سے بھی بے خبر ہیں۔ آج کے دن تو کم از کم ان مجبورطبقے کو مت بھولئے،مزدوروں کے لیے آواز اٹھایئے۔
جب سے وبا ملک بلکہ عالم کو اپنے لپیٹ میں لے رکھا ہے، ہر طبقے اس کے اثرات کے زد میں اگئے ہیں۔ سب سے زیادہ متاثر ہیں وہ دیہاڑی دار طبقہ ہے۔ لاسپور کے مزدور طبقے ہر سال مزدور ی کے غرض سے گلگت بلتستان کا رخ کرتے ہیں، ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی دوسرا کوئی زاریعہ موجود نہیں ہوتا ہے۔ یہ لوگ گلگت میں زیادہ تر کنسٹرکشن کے کام کے ساتھ محنت مزدوری کرتے ہیں۔ اور اپنے بال بچوں کی روزی روٹی کا بندوبست کا گزارہ اسی طرح سے کرتے ہیں۔

جب سے ملک میں لاک ڈاون کا نفاذ کیا گیا، تب سے ان کی مزدوری بھی ختم، گلگت سے ٹھیکہ داروں نے انکو گھروں کی طرف نکلنے کو کہا گیا۔ کیونکہ حالات معمول پر آنے کی کوئی یقینی صورت فلحال نظر نہیں آتا ہے۔ اللہ کرے کہ حالات بہت جلد صحیح ہوجائیں، لیکن بظاہر ایسا لگتا نہیں، اس وباء کو ختم ہونے میں وقت لگ سکتا ہے۔ انہی صورت حال کی وجہ سے لاسپور کے لگ بھگ ایک سے دو سو کے قریب مزدور افراد، ڈیڑھ ماہ قبل اپنے گھروں کی طرف نکل چکے ہیں لیکن شندور سے اجازت نہیں ملنے کی وجہ سے وہ تا حال دربدر ہیں، ابھی ڈیڑھ ماہ گزرنے کے باجود بھی اپنے گھروں تک پہنچ نہیں سکے ہیں۔ وہ ڈیڑھ ماو سے شندور سے ملحقہ ضلع غذر کے مختلف گاوں برست سے پھنڈر کے درمیاں پریشانی کے عالم میں اپنے رشتہ داروں کے ہاں رہنے پر مجبور ہیں۔ انکو اپنے گھروں تک رسائی کے لئے آواز یا قدم اٹھانے کے لئے کوئی بھی تیا ر نہیں ہیں۔ یہ لوگ کسی طرح چترال اکر قرنطینہ میں بھی رہنا چاہتے ہیں۔ لیکن انکو کسی صورت آنے نہیں دیا جارہا ہے۔ وہ شندور کے اس پار مہمان بنکر بھی بیزار آچکے ہیں اور میزبان کب تک میزبانی کرتے رہیں گے؟ کیا ان کو اپنے گھروں تک آنے نہیں دینا مسلے کا حل ہے؟ آخر کب تک وہ اسی طرح دربدر رہیں گے؟

چترال سے کل ایک مزاحیکہ خبر پڑھکر کوئی حیرت نہیں ہوئی، کہ چترال کے آل پارٹیز کانفرس میں لواری کو مکمل بند رکھنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یعنی مصیبت میں پھسے طبقے کی ترجمانی اور مدد کرنے کے بجائے انکو مشکل میں ڈالنے والا یہ دنیا کا واحد کوئی پارٹی ہو گا۔ اس پارٹی اور اجلاس میں شراکاء میں سے کوئی ایک نے بھی احساس ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ۔ ان لوگوں کو کس نے اتنا اختیار دیا ہے کہ وہ اپنے مرضی کا قانون چترال اور چترالیون پر مسلط کریں؟ وہ اگر کسی کی مدد نہیں کرسکتے ہیں تو براہ مہربانی مصیبت کھڑی کرنے سے باز رہیں۔ کیا انکا یہ فیصلہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں نہیں اتا؟

اپنے چترال کی اس پارٹی کے علم میں اضافہ کرتا جاوں، کہ باقی صوبے اپنے لوگوں کی کس طرح خدمت اور ترجمانی کرتے ہیں۔ گلگت بلتستان کے چیف منسٹر کے میڈیا کوارڈینیٹر اور ڈایریکٹر ایکسایز اینڈ پولیس کراچی میں ڈھیرا ڈالے ہوئے ہیں۔ ان کو گلگت بلتسان کے وزیر اعلیٰ صاحب نے اس لئے بیجھا ہے۔تا کہ کراچی میں پھسے گلگت بلستان کے لوگون کو کراچی سے نکال کر گلگت بلتسان کی طرف روانہ کیا جائیں۔ گلگت بلتستان حکومت کی ٹیم اپنے لوگوں کو دوسرے شہروں سے باحفاظت با عزت طریقے سے اپنے گھروں تک پہنچانے میں بھرپور کردار ادا کررہی ہے۔
میر ا بھی ممبر نیشنل اسمبلی چترال جناب عبدولاکبر چترالی صاحب، ایم پی اے چترال مولانا ہدایت الرحمان صاحب، مشیر اقلیت جناب وزیرذادہ صاحب اور دونوں ضلعی انتظامیہ اپر چترال اور لوور چترال سے گزارش ہے، کہ غذر میں پھسے لاسپور کے مزدوروں سمیت ملک کے باقی حصوں میں محصور چترالیوں کو اپنے گھروں تک رسائی کے لئے کوئی لائحہ عمل ترتیب دیکر انکی مدد کے لئے بھرپور کردار ادا کریں۔

اجرت میں نہ ہو اضافہ اور بھی کام بڑھ گیا
مزدور کا دن تھا۔۔ امیر کا آرام بڑھ گیا۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔