اور میں امتحان نہ دے سکا!

طلحہ حسن
تعمیر ملت سکول الخدمت یوتھ کمپلکس۔۔۔۔۔۔
گزشتہ سال جماعت نہم میں کم marks آنے کا رونا رو رو کر Facebook پر post لگایا تھا، نا معلوم وجوہات کی بنا پر جس کی زبردست پزیرائی ہوئی، ایک آدھ جریدے میں مضمون کی صورت میں چھپ بھی گئی، اور اِدھر اُدھر سے ڈھیر ساری شاباشیاں موصول ہوئیں.وہ مضمون کا نتیجہ تھا یا کچھ اور، اساتذہ نے نئے رخ پر تیاری شروع کردی، زیادہ marks لینے کے گر تلاش کرکر کے سکھائے، بورڈ کی طرف سے ٹاپ پوزیشن ہولڈرز طلبہ کے جاری شدہ پیپرزprojector کے ذریعے بار بار دکھاتے ہوئے اس طریق پر مسلسل papers تیار کرنے کی ہدایات دیں۔دسمبر اور جنوری کے مہینے اس طریقہ کار کے مطابق ٹیسٹ پہ ٹیسٹ دیتے گزر گئے۔یوں ہم اساتذہ اور اپنی دانست میں امتحان کے لیے پوری طرح تیار ہوگئے۔باوجود اس کے کہ اس دوران ”حسن البناء شہید کی ڈائری” ہاتھ لگی، جس میں تعلیم کے متعلق اس عظیم شخص نے جن زرین خیالات کا اظہار کیا ہے وہی کچھ میرے بھی دل و دماغ میں بیٹھ گئے، مگر ” والدین کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے”، ”اساتذہ کی امیدیں بھرلانے” اور ”نالائقی ” کے الزام سے بچنے کے لیے ہم باوجود ”زیادہ مارکس” کی حصولی کو اصل چیز نہ سمجھتے ہوئے بھی اس کی جستجو میں لگے رہے۔سائنس کی برکت سے نیٹ کے ذریعے ہر اس چیز کا سراغ لگا کر پلے باندھنے کی کوشش کی جو اس بے معنی کام میں ہماری معاون ثابت ہوسکتی تھی۔سو جتنی سرکھپائی ہم سے ممکن تھی ہم نے کرلی اور بڑی شدت سے پیپر کے دن کا انتظار کرنے لگے کہ کس طرح اس بار محنت اور طریقہ کار کے سہارے سال رفتہ کا بدلہ چکاتے ہیں؟ سو 13مارچ کو ہمارے جونیرز (جماعت نہم والے) پیپر دے کر آگئے اور ہم اپنی باری کا انتظار کرنے لگے۔اس دوران corona کی وبا پاکستان پہنچ کر کافی پریشانی پیدا کردی تھی۔ شام تک افواہ سی پھیلی کہ پیپرز ملتوی ہوگئے ہیں…ہم پریشاں ادھر ادھر سے پتا لگانے لگے، جس جس سے اس کی تصدیق کرسکتے تھے کرلیے، ہر در اور ہر طرف سے اثبات ہی میں جواب پاکر نہایت مایوس ہو کر بیٹھ گئے۔ اگلے دن یہ بھی خبریں آنے لگیں کہ امتحانات ملتوی ہی نہیں بلکہ منسوخ ہونے جا رہے ہیں اور جملہ طلبہ و طالبات کو امتحان کے بغیر سابقہ کھاتے ہی پر promote کردیا جا رہا ہے۔اس خبر نے تو رہی سہی امید پر پانی پھیر دی۔اور ہم سر پکڑ کر پورے سال کی محنت اور سرکھپائی کو سوچتے، افسوس کرتے اور تنہائی میں آنسو بہاتے رہ گئے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہ نے فرمایا تھا کہ ”میں نے ارادوں کے ٹونٹے سے رب کو پہچان لیا ہے” واقعی انسان کے ارادے اور عزائم تار عنکبوت سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے۔ان کے ٹوٹنے، مٹی میں رل ملنے میں کچھ وقت نہیں لگتا۔ حقیقت میں ہوتا وہی کچھ ہے جو رب کو مطلوب ہوتی ہے۔ سال گزشتہ کے دوران نصاب کی کتابوں سے دو دو ہاتھ ہونے کے ساتھ کسی کی ترغیب پر فہم قرآن کا شوق سرپر سوار ہوا۔ ”تفہیم القرآن” ہاتھ آئی، چند سطریں پڑھنے کے بعد دل کے دریچے وا ہونے لگے اور قلب و روح عجیب مسرت و شادمانی محسوس کرنے لگی۔ اب مسئلہ درپیش تھا وقت نکالنے کا۔ کیونکہ اسکول اور اس کے متعلق امور، گھر کے دیگر کام اور لڑکپن کے معاملات کے ساتھ اس بارگراں کے لیے وقت نکالنا ممکن نہ تھا۔ والدین کی جانب سے پابندی کی وجہ سے سحرخیزی کی بچپن سے عادت تھی۔ سوچا کہ کیوں نہ routine سے تھوڑی دیر پہلے جاگا جائے، اور صبح صادق کے طلوع ہوتے ہی قرآن کی محفل سجائی جائے۔ چند دن کی کوشش سے یہ مسئلہ بھی حل ہوگیا۔ درحقیقت یہ ہمت بھی حسن البنا شہید کی روداد ہی سے پیدا ہوئی۔ اس مصری شہید کی روداد بڑی دلچسپ ہے اور نوجوانوں کے لیے اس کتاب میں کام کی بڑی باتیں ہیں۔ وہ عظیم انسان اور ان کے چند دوست ہماری ہی عمر میں اسکندریہ شہر کے مؤذنوں کو اذان سحر کے لیے جگایا کرتے تھے، میں نے سوچا کہ جب وہ یہ کرسکتے تھے تو میں کچھ سویرے جاگ کر اپنے ہی گھر میں قرآن کیوں نہیں پڑھ سکتا؟ سو ارادہ کیا، اللہ نے مدد کی اور اب الحمد للہ اذان سحر گاہی سے قبل قرآن سے ہم کلام ہونے کا شرف تسلسل سے جاری ہے۔ اب خوف ہے تو ایک بات کا،کہ اگر اللہ نے زندگی دی تو F.S.C کرنے کے بعد کہیں رواج کے مطابق میرے والدین اور عزیز و اقارب بھی مجھ سے ڈاکٹر اور انجینئر بننے کا تقاضا نہ کردیں۔ حسن البنا شہید اور سید مودودی نے ”بامقصد زندگی” کا بالکل مختلف میدان اور Idea ذہن میں بیٹھا دیا ہے، آگے دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر ذاکر نائک، ڈاکٹر اسرار احمدؒ اور خرم مراد ؒ بن کر زندگی گزارنے کی توفیق اور موقع رب دیتا ہے یا معاش کے نہایت پامال نصب العین کو سامنے رکھ کر یہ حیات مستعار گزارنے پر اعزہ مجبور کرتے ہیں۔ ہمارا کام دراصل درست نیت کے ساتھ آگے بڑھنا ہے، توفیق اور خوابوں کے شرمندہ تعبیر ہونیکا معاملہ اس خدائے جلیل و جمیل کے قبضے میں ہے، جو اس جہان اور اس میں موجود ہر شے کا خالق، مالک، رازق اور حاکم حقیقی ہے۔
اقبال نے کیا خوب کہا ہے:
وہی جہاں ہے تیرا جس کو تو کرے پیدا
یہ سنگ و خشت نہیں جو تیری نگاہ میں ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔