طبی شعبے میں خود کفالت کی نوید

……..محمد شریف شکیب……

سائنس و ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر فواد چوہدری نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں سینی ٹائزر وافر مقدار میں موجود ہیں ہم نے خود سینی ٹائزرز کی تیاری شروع کردی ہے اور برآمد کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ڈاکٹرز کیلئے طبی آلات اور سیفٹی کٹس بھی پاکستان میں تیار ہونا شروع ہو گئے ہیں، کورونا کی ویکسین تیار کرنے کیلئے ایک ماہرین کی ٹیم بنائی گئی ہے،پاکستان میں کورونا وائرس کی تشخیص کیلئے گردوں کے ذریعہ ٹیسٹنگ کی جا رہی ہے اور اس ٹیسٹ کی بڑی مثال سماجی کارکن فیصل ایدھی ہیں، ان کاکورونا ٹیسٹ گردوں کے ذریعہ کیا گیا تھا۔وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ 26فروری کو پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا کیس سامنے آیا اور اس وقت پاکستان کے پاس نہ سینی ٹائزرز تھے نہ سرجیکل ماسک اور وینٹی لیٹرز تھے،لیکن اب پاکستان میں اپنی تیار کردہ تمام چیزیں موجود ہیں۔ ملک میں سستے اور معیاری وینٹی لیٹرز تیار کر رہے ہیں جب کسی قوم برا وقت آتا ہے تو یہ اس کے صبر، استقامت اور تحیل کا امتحان ہوتا ہے۔چین کی مثال ہمارے سامنے ہے انہوں نے عالمی وباء کا تنہا مقابلہ کیا اور اسے شکست دیدی،آج چین ہی امریکہ سمیت دنیا کے مختلف ممالک کو وینٹی لیٹرز، این 95ماسک اور دیگر حفاظتی سامان برآمد کر رہا ہے انہوں نے امتحان کو موقع میں تبدیل کردیا۔بات جامع منصوبہ بندی اور اس پر خلوص کے ساتھ عمل درآمد کی ہے۔ پاکستان جوہری ہتھیار بناسکتا ہے ساڑھے تین ہزار کلو میٹر تک ایٹمی ہتھیار لے جانے والا شاہین،غوری اورحتف میزائلوں کی پوری سیریز بناسکتا ہے، آبدوزاور جے ایف 17تھنڈر لڑاکا بمبار جنگی جہاز بناسکتا ہے تو سرجیکل ماسک، سینی ٹائزر اور وینٹی لیٹرز کیوں نہیں بناسکتا۔اس نے خودکفالت کی منزل پانے کا عزم کیا اور ایک مہینے کے اندر اپنے خواب کو تعبیر کا جامہ بھی پہنا دیا۔اگر ہمارے سائنس دان اور طبی ماہرین کورونا وائرس کی ویکسین تیار کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو یہ عالمی سطح پرہماری غیر معمولی کامیابی ہوگی۔المیہ یہ ہے کہ ہم نے آج تک کسی بھی شعبے میں خود کفالت کی منزل پانے کی کوشش ہی نہیں کی۔ ہمارے پاس تعمیری ذہن کے ساتھ قدرت کی عطا کردہ ہروہ چیز موجود ہے۔جو ترقی کے لئے ضروری سمجھی جاتی ہے۔لیکن قیام پاکستان کے بعد کسی بھی حکومت نے تعلیم اور تحقیق کو اپنی ترجیح نہیں بنائی۔سوئی دھاگے سے لے کر بھاری مشینری تک ہر چیز ہم باہر سے منگواتے اور قوم کے ٹیکسوں کا پیسہ درآمدات پر لٹاتے رہے۔اور اس پر فخر بھی کرتے رہے۔کیونکہ ان سودوں میں حکمرانوں اور افسر شاہی کو لاکھوں کروڑوں ڈالر کمیشن کی صورت میں ملتے تھے۔برآمدی اشیاء استعمال کرنے کو سماجی برتری کی علامت تصور کیا جاتا ہے۔ وزیراعظم جونیجو کے دور میں ملکی سطح پر تیار ہونے والی چھ سو سی سی گاڑیوں کے استعمال کا فیصلہ ہوا۔ لیکن مرسیڈیز، رولز رائس، لیموزین،پراڈو اور پجیرو جیسی قیمتی بلٹ پروف ائرکنڈیشنڈ گاڑیاں استعمال کرنے کے عادی افسروں اور وزراء نے اس منصوبے کو ناکامی سے دوچار کردیا۔ ایک سابق صدر نے عوام کو سادگی اور کفایت شعاری کا درس دینے کے لئے سائیکل پر دو کلو میٹر کا فاصلہ طے کیا تھا۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ نصف گھنٹے پر محیط صدر کی اس سائیکل مٹر گشت پر قومی خزانے سے سیکورٹی کی مد میں بیس لاکھ روپے خرچ کئے گئے۔جن لوگوں کے پہننے کا کپڑا، سونے کے لئے بستر اور بیڈ، ہاتھ دھونے کا صابن، شیمپو، تولیہ، ٹشو پیپر بھی فرانس، برطانیہ، جرمنی، ہالینڈ اور امریکہ سے آتے ہیں انہیں ملکی وسائل کو فروغ دینے کی کہاں فکر ہوتی ہے۔مقام شکر ہے کہ کورونا کی وباء نے ہمیں خود انحصاری پر غور کرنے کا موقع فراہم کیا۔ کیونکہ امریکہ سمیت تمام ممالک کورونا کے ہاتھوں بدحالی سے دوچار ہیں اس موقع پر ہمارے پالیسی ساز وں کے پاس بیرون ملک جاکر اپنا علاج کرانے کا کوئی موقع نہیں ہے کیونکہ وہ ملک کے اندر زیادہ محفوظ ہیں، باہر جائیں گے تو جان کے لالے پڑسکتے ہیں۔وفاقی حکومت کی طرف سے حفاظتی کٹس اور وینٹی لیٹرز کی تیاری میں خود کفالت کا اعلان بلاشبہ قوم کے لئے آزمائش کی گھڑی میں ایک بڑی خوش خبری ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ طبی آلات کی تیاری میں خود کفالت ہمارے ہسپتالوں میں بھی نظر آنی چاہئے۔ تمام ٹیچنگ اورضلعی ہیڈکوارٹر ہسپتالوں کو ٹیسٹنگ کٹس اور حفاظتی سامان وافر مقدار میں فراہم کرنا چاہئے تاکہ کورونا کی وباء کو مزید پھیلنے سے روکا جاسکے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔