گورنمنٹ سرونٹ کالونی دنین میں بجلی کا ٹرانسفارمررمضان المبارک میں باربارخراب، مکین سخت تکلیف میں مبتلا،مرمت کے اخراجات خود برداشت کرنے پر مجبور

چترال (نمائندہ چترال ایکسپریس) دنین میں واقع گورنمنٹ سرونٹ کالونی میں بجلی کا ٹرانسفارمر رمضان المبارک کے رواں ماہ کے دوران تین دفعہ خرابی کا شکار ہوا جس کی وجہ یہ علاقہ تاریکی میں ڈوب کررہ گئی اور مکین سخت تکلیف میں مبتلا ہیں۔چترال کے دوسرے علاقوں کی طرح یہاں بھی اپنی مدد آپ کے تحت ٹرانسفارمر کی مرمت کے اخراجات خود برداشت کررہے ہیں بصورت دیگر خراب ٹرانسفارمر کی مرمت کاکام چکدرہ میں ہوتا ہے جس کا کرایہ بھی کنزیومروں سے وصول کیاجا تا ہے اور اس عمل میں کئی مہینے لگ سکتے ہیں۔دنین کالونی کے مکینوں کا کہنا ہے کہ پیسکو کے دفتر سے رابطہ کرنے پر بتایاجاتا ہے کہ یہ ٹرانسفارمر پرائیویٹ ہے جسے سی اینڈ ڈبلیو ڈیپارٹمنٹ نے کالونی کے لئے نصب کیا ہے جس کی وجہ سے اس کی مرمت بھی ان کی اپنی ذمہ داری ہے لیکن ان کاکہنا ہے کہ اگر یہ درست ہے تو اس ٹرانسفارمر سے بونی روڈ میں موٹر گاڑیوں کی ورکشاپوں، آرا مشینوں اور ایک پٹرول پمپ کو بھی بجلی دی گئی ہے جوکہ خالصتاً کمرشل ہے اور 25کے وی کی اس ٹرانسفارمر کی خرابی کی بنیادی وجہ بھی یہی کمرشل صارفین ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھاکہ بریک ڈاؤن کی صورت میں مرمت کے لئے چندہ یہ کمرشل صارفین نہیں دیتے اور اُس وقت یہ صرف اور صرف کالونی کا پرائیویٹ ٹرانسفارمر بن جاتا ہے لیکن درست کرنے پر یہ پیسکو کی پراپرٹی بن جاتی ہے جہاں سے جسے بھی کنکشن دے دیں تو پوچھنے والا کوئی نہیں۔ چترال میں 21ہزار سے ذیادہ صارفین بجلی کے لئے علاقے کی جعرافیائی حالات کے پیش نظر نہ تو یہاں پیسکو کے پاس ریزرو میں ٹرانسفارمر موجود ہیں نہ ہی ان کی مرمت کے لئے ورکشاپ قائم کیا جارہا ہے جبکہ صارفین ٹرانسفامروں کی مرمت سے تنگ آچکے ہیں جوکہ 1970ء کی عشرے میں نصب کئے گئے تھے اور اکثر اپنی میعاد پوری کرچکے ہیں۔ چترال کے عوام پیسکو کے ہاتھوں ایسے مظالم کا شکار ہیں کہ اس کے تصور سے رونگھٹے کھڑے ہونے لگتے ہیں اور اس بات پہ لوگ وزیر عمران خان کی تبدیلی کے دعوے کو ایک بھونڈا مذاق قرار دیتے ہیں جس میں گزشتہ دو سالوں کے دوران پیسکو کی کارکردگی میں بہتری دوربین میں نظر نہیں آرہی۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔