12مئی نرسوں کاعالمی دن۔۔۔۔۔

…..۔۔تحریر:سیدنذیرحسین شاہ نذیر….

نرسنگ وہ مقد س پیشہ ہے جو دکھی انسانیت کی خدمت مصروف عمل ہے
پاکستان سمیت دنیابھرمیں ہرسال 12مئی کونرسوں کی خدمات کے اعتراف میں نرسوں کاعالمی دن منایاجاتاہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر نرسز کا عالمی دن انٹر نیشنل کونسل آف نرسز کے زیر اہتمام 1965ء سے لے کر اب تک ہر سال12مئی کو منایا جاتا ہے۔اس دن کے منانے کا مقصد جہاں نرسوں کی لائق تحسین خدمات کا اعتراف ہے تو دوسری جانب اس شعبہ سے وابستہ خواتین کے مسائل کو اُجاگر کرنا ہے اور ان کے تدراک کے لئے کاوشیں کرنا ہے۔صحت کے شعبے میں ڈاکٹر ز کے ساتھ ساتھ نرسوں کا کردار کلیدی اور انتہائی اہمیت کا حامل ہے نرسیں بلارنگ ونسل اور مذہب دکھی انسانیت کی خدمت کرنا اپنا فرض سمجھتی ہیں تشخیص کے بعد علاج کا سب سے زیادہ عمل دخل نرسنگ کے شعبے سے تعلق رکھتا ہے آدھے سے زیادہ مریض علاج کے دوران نرسنگ سٹاف کے اچھے رویے کی وجہ سے اپنے آپ کوبہترمحسوس کرتے ہوئے جلدصحت یاب ہوناشروع ہوجاتاہے۔
چترال جیسے پسماندہ اوردورافتادہ علاقوں میں نرس،ڈسپنسرزدیگرپیرمیڈیکل کو ڈاکٹرکی نگاہ سے دیکھاجاتاہے۔نرسیس اتنہائی دورافتادہ علاقوں میں غریب بیمارلوگوں کاعلاج کے لئے اپنی حیثیت کے مطابق ادویات دیکرمجبوراوربے بس لوگوں کادل جیتے ہیں۔ہمارے معاشرے کے بعض طبقے اس پیشے کوقدرکی نگاہ سے نہیں دیکھ کر اپنے بہنوں اوربیٹیوں کو اس فیلڈمیں جانے سے روکتے ہیں۔اگرحقیقت کی نگاہ سے دیکھاجائے تو نرسیس کی خدمات ناقابل فراموش ہے۔
نرسنگ وہ شعبہ ہے جو کسی بھی مریض کے زخموں پر مرہم رکھنے اور اس کی صحت کی بحالی میں اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں یہ ابھی تک اپنے حقیقی مقام سے بہت دور نظر آتا ہے۔ نرسوں کو پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی میں لاتعداد مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن پر سنجید ہ توجہ اور انہیں حل کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں نرسنگ کے شعبہ کی بنیاد بیگم رعنا لیاقت علی خان نے رکھی تھی۔ نرسنگ وہ شعبہ ہے جو کسی بھی مریض کے زخموں پر مرہم رکھنے اور اس کی صحت کی بحالی میں اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں یہ ابھی تک اپنے حقیقی مقام سے بہت دور نظر آتا ہے، حکومت کو نرسوں کے مسائل ترجیحی طور پر حل کرنا چاہئے تاکہ یہ اطمنان بخش زندگی گزار کر دکھی انسانیت اور درد و کرب میں مبتلا مریضوں کی بہتر طور پر خدمت اور نگہداشت کرسکیں
ڈسٹرکٹ ہیڈکواٹرہسپتال چترال کے سینئرنرس طاہرہ سیدنے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ گذشتہ 30سالوں سے اس پیشے سے وابستہ ہوں۔انہوں نے کہاکہ نرسنگ کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد بھی خلوص نیت کے ساتھ کام کریں اور ان کے حوالے سے عام افراد میں جو شکایات پائی جاتی ہیں انہیں دور کرنے کے لئے بھی کوششیں کریں یقینا یہی بارہ مئی کے عالمی یوم نرسنگ کا پیغام ہے جسے اپنانے اور اس پر اپنے اپنے دائروں میں عمل کرنے کی ضرورت ہے دیکھنا یہ ہے کہ اس پیشے سے وابستہ تقاضوں کو نبھانے میں نرسنگ اسٹاف پہل کرتا ہے یا حکومت انہیں سہولیات فراہم کر کے سہولتوں کے حوالے سے موجود شکایات کا سدباب کرتی ہے۔ بہر حال کوشش جہاں سے بھی ہو یہ ایک حقیقت ہے کہ اس شعبے کو اس کا حقیقی مقام دلوانے کے لئے دونوں جانب سے بہت کچھ کرنا باقی ہے۔انہوں نے کہاکہ دن ہو یا رات معمول کے مریضوں کی دیکھ بھال ہو یا کسی ایمرجنسی کی صورت میں زندگی بچانے کی دوڑ، صحت کے اس شعبہ سے وابستہ یہ طبقہ ہر دم تیار رہتا ہے۔
دنیا بھر میں نرسنگ ایک مقدس اور محترم پیشے کے طور پر مقبو ل ہے۔ ہمارے یہاں اگرچہ صورتحال مختلف ہے لیکن درحقیقت کسی مریض کی جان بچانے یا اس کی تیمارداری کے دوران ایک نرس کا کردار کسی ڈاکٹر سے کم نہیں۔ کرونا وائرس کی جنگ میں ہر اول دستے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔نرسنگ وہ مقد س پیشہ ہے جو دکھی انسانیت کی خدمت میں مصروف عمل ہے۔
اس دن کو منانے کا مقصد جہاں نرسنگ سٹاف کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلانا ہے وہاں نرسوں کا عالمی دن کے موقع پراس مقدس پیشہ سے منسلک نرسنگ سٹاف کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرناہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔