سینوں میں اختلاف کی چاقو زنی

….فیض العزیز فیض….

ایک بزرگ اپنے علم و کمال کے سبب بہت مشہور ہوئے۔ ان سے ملنے کے لیے ایک شخص کسی دوسرے شہر سے آیا۔ کافی تلاش کے بعد وہ شخص بزرگ کے گھر پہنچ گیا، دروازہ کھٹکھٹایا، اندرسے ان بزرگ کی بیوی نے پوچھا کہ کون ہے؟ اس شخص نے ساری بات بیان کردی تو بزرگ کی بیوی نے اس شخص سے کہا کہ آپ کو کوئی غلط فہمی ہوگئی ہے، میرا شوہر تو کسی قابل بھی نہیں، نہایت غلط کردار کا حامل ہے۔آپ نے بلاوجہ اتنا سفر کرکے یہاں پہنچ کر اپنا وقت برباد کیا۔ یہ بات سن کراس شخص کو بڑی حیرانی ہوئی اوروہ اس عورت کی بدزبانی پربھی سخت حیران ہوا۔ خیروہ شخص ہمت نہ ہارا اوران بزرگ کو تلاش کرتے کرتے جنگل میں جا نکلا۔ اس شخص نے دیکھا کہ جنگل میں وہ بزرگ شیرپرسوارہوکرآرہے ہیں۔ یہ شخص پھر بہت حیران ہوااوران بزرگ سے کہنے لگا کہ آپ کی بیوی تو بڑی بد زبان ہے اورآپ کے بارے میں نہ جانے کیا کیا کہہ رہی تھی اورآپ یہاں شیرپرسواری کررہے ہیں، شیرآپ کے تابع ہے، بات کچھ سمجھ نہیں آئی۔ اس پربزرگ نے جواب دیا کہ میں ایسی بدزبان بیوی کوبرداشت کررہا ہوں اس کے ساتھ گزارا کررہا ہوں تبھی تو شیرکوبھی قابو کرلیا ہے اوریہ مقام حاصل کرلیا۔
مولانا روم کی اس حکایت میں ہمارے معاشرے کے لیے ایک بہت بڑا پیغام پوشیدہ ہے جو ہمارے معاشرے کے اس وقت سب سے اہم مسئلے کا حل بھی ہے اوروہ ہے ’’عدم برداشت‘‘۔ آج ہمارے معاشرے میں گھریلوساس بہو کے جھگڑوں سے لے کر قتل وغارت کے واقعات کے پس پردہ یہی عدم برداشت ہے۔ آج ہم رشتوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں، سیاسی و مذہبی نظریات کے فرق کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں. کسی بات پرمعمولی تکرارکے ساتھ ہی ہمارے پسٹل اورچاقو نیام سے باہر آکراگلے کی زندگی کے چراغ کو گھل کردیتے ہیں.اس ماہ مبارک میں ایک ہفتے کے دوران دو لوگ اپنی جانوں سے گئے دومون بروز کے لطیف الرحمان ہویا کوغذی کے محمد یحییٰ.ان کی عمریں دیکھئے اوراس کرب واذیت کا تصورکیجئے جوان کے ماں باپ اور بچوں پر گزر رہی ہوگی. آخرکیا وجوہات ہیں کہ ہم اتنے آپے سے باہر ہوتے جارہے ہیں. اختلاف رائے کا مقصد یا کوئی معمولی جھگڑے کا نتیجہ صرف یہی رہ گیا ہے کہ ھم ایک دوسرے کو صفحہ ہستی سے ہی مٹا دیں. صبرو تحمل بھی کوئی چیز ہوتی ہے.
میرے خوبصورت علاقے کے خوبصورت لوگ کتنے تحمل مزاج، صابراوربرد بارہوا کرتے تھے. کچھ سالوں پہلے تک ھمیں یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ نیشنل ٹی وی پرمعترفیں یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے تھے کہ چترال واحد ضلع ہے کہ جہاں سال میں ایک بھی قتل اوردہشت گردی کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا. لیکن حالیہ کچھ سالوں کے دوران جو حالات ھم دیکھ رہے ہیں وہ انتہائی تشویشناک ہے.
 انفرادی رویہ ہی معاشرے کا عکس ہوتا ہے، دین کو عمیق نگاہوں سے جانچا جائے تو بخوبی معلوم ہوتاہے کہ دین میں برداشت کا جو سبق دیاگیا ہے وہ بے مثال ہے مگر انسان صرف اپنے اندر ابھرنے والے جذبات کو قابو نہ کرسکنے کی وجہ سے صبروبرداشت کا دامن ہاتھ سے چھوڑدیتاہے اورزندگی بھر کے پچھتاوے اپنے نام کرلیتاہے۔اسلامی تاریخ میں مسلم معاشرے کے ہرفرد نے انفرادی کردار کے ذریعے صبر و تحمل، برداشت اوررواداری کا مظاہرہ کیا ، کسی خلیفہ نے ڈنڈے کے حکم سے معاشرے میں برداشت کی کیفیت نافذ نہیں کی، یہ ہماری اسلامی تعلیمات کا خاصہ ہے:کہ ھمارے اسلاف کے صبروتحمل کی اونچائی ماونٹ ایورسٹ سے بھی اونچی تھی. حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ دشمن کو زمین پر گرا دیتے ہیں اورقریب تھا کہ دشمن کے اوپر آخری وارکرکے اسے ختم کردیتے کہ دشمن شخص اپ کے چہرہ تقدس پر تھوک دیتا ہے جس کے بعد آپ بجائے دشمن کو قتل کرنے کے چھوڑ دیتے ہیں اورجب وہ دشمن پوچھتا ہے کہ انھوں نے ایسا کیوں کیا؟ تو آپ جواب دیتے ہیں کہ یہ عمل اس لیے کیا کیوں کہ تھوکنے کے بعد اگر قتل کرتے تواس میں میری ذاتی خلش اورغصہ شامل ہوجاتا جب کہ میں صرف اﷲ کے نام پرجہاد کررہا تھا ۔کمال ظبط کا اندازہ لگائیے. قربان جائیے ان ہستیوں پہ جب میدان جنگ میں اترتے ہیں تو قیصروکسری کے درو دیوار ہلا دیتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ شیر خدا یہ پیغام بھی دیتے ہیں کہ ان کے نزدیک سب سے بہادرشخص وہ ہے جو اپنے غصے کو کنٹرول کرے. ہم تو اس نبیﷺ کی امت ہیں جنہوں نے طائف کی گلیوں میں سنگریزوں سے لہولہان ہوکر بھی بد دعا کے لیے دست دراز نہ کیے۔ ہم توان کے امتی ہیں جنہوں نے اپنے جان سے عزیز چچا جان کا کلیجہ چبانے والی ہندہ کو بھی معاف کردیا، جنہوں نے غالب ہوکربھی دشمن کو امان دی۔ ہم تو ان کے پیروکار ہیں جنہوں نے گردن پر رکھی تلوار فقط اس لیے اٹھالی کہ مبادا یہ قتل میرے غصے کے سبب نہ ہوجائے۔ ہم تو اس ریاست کے شہری ہیں جس کی بنیاد اسلام اور دستور قرآن ہے۔ پھر آخر ہمارا رویہ ایسا کیوں؟ ہم کیوں مذہب، سیاست، مسلک، رنگ، نسل اور لسان کو بنیاد بنا کر عدم رواداری کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ ہم کیوں خود ہی گواہ، وکیل اورمنصف بنے ہوئے ہیں؟
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔